کراچی (جیوڈیسک) صدر آصف زرداری کے چیف سیکیورٹی آفیسر بلال شیخ پر خود کش حملے کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ دوسری جانب ابتدائی رپورٹ کے مطابق حملے میں چار سے پانچ کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا۔ بلال شیخ کی نمازہ جنازہ آج ادا کی جائے گی۔ کراچی بلال شیخ پر حملے کا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں تھانہ جمشید ٹان میں درج کیا گیا ہے۔ مقدمہ میں قتل، اقدام قتل اور انسدا دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ دوسری جانب بلال شیخ پر حملے کی تحقیقات کے لئے ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔
6 رکنی تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی ڈی آئی جی ایسٹ کریں گے۔ تحقیقاتی ٹیم میں ایس ایس پی ایسٹ اور اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ ادھر پولیس حکام نے ابتدائی رپورٹ میں کہا ہے کہ بلال شیخ حملے کے وقت اپنی بلٹ پروف گاڑی میں موجود تھے۔ تاہم گاڑی کا دروازہ کھلا ہونے کے باعث وہ خود کش حملہ آور کی زد میں آ گئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے۔
کہ دھماکہ خیز مواد کی مقدار 4 سے 5 کلو گرام تھی۔ مبینہ خود کش حملہ آور کے سر کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بم ڈسپوزل سکواڈ، سی آئی ڈی اور علاقہ پولیس کی تفتیشی رپورٹس شامل ہیں۔ اس میں بلال شیخ کی سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں، زخمیوں اور سرکاری ڈرائیوروں سمیت 16 افراد کے بیانات بھی شامل کیے گئے ہیں۔
واضع رہے کہ گرومندر کے قریب ہونے والے خود کش حملے میں صدر آصف زرداری کے چیف سیکورٹی افسر بلال شیخ سمیت چار افراد جاں بحق اور پندرہ زخمی ہو گئے تھے۔ دہشتگردوں نے بلاول ہاس کے چیف سیکیورٹی آفیسر بلال شیخ کی گاڑی کو اس وقت نشانہ بنایا جب گرومندر میں گاڑی پھل لینے کے لیے رکی۔ دھماکا انتہائی شدید نوعیت کا تھا جس نے ہر طرف تباہی مچا دی۔ دھماکے سے قریبی دکانوں اور عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔ غم سے نڈھال لوگ اپنوں کو ڈھونڈتے ہوئے روتے نظر آئے۔ دھماکے میں زخمی ہونے والے پندرہ افراد کو جناح اور سول ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں کئی کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
بلال شیخ کے سیکیورٹی گارڈ کا کہنا ہے کہ صرف پھل والا قریب آیا جس کے بعد دھماکا ہوگیا۔ ایڈیشنل آئی جی غلام قادر کا کہنا ہے کہ دھماکے کی جگہ سے ایک سر بھی ملا ہے جس کا ڈی این اے ٹیسٹ کرائیں گے۔ دھماکے کے بعد رینجرز اور پولیس کے اہلکاروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور شواہد اکٹھے کرنے لگے۔ اس سے پہلے 17 جون 2004 کو بلاول ہاس کے ترجمان بے نظیر بھٹو کے چیف سیکیورٹی آفیسر منور سہروردی کو بھی اسی جگہ پر قتل کیا گیا تھا۔
واضع رہے کہ پیپلز پارٹی کے رہنما بلال شیخ کا شمار صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ ان پر اس سے پہلے بھی قاتلانہ حملہ کیا کیا گیا تھا۔ بلال شیخ پر مئی 2011 میں بھی ان کے گھر کے قریب حملہ کیا گیا تھا تاہم وہ اس میں محفوظ رہے جبکہ ان کی سیکیورٹی پر معمور دو پولیس اہلکار سرفراز اور محمود اس میں زخمی ہوئے۔ بلال شیخ کئی برسوں سے پیپلز پارٹی سے وابستہ تھے۔
جبکہ جب پیپلز پارٹی اپوزیشن میں تھی تو وہ کئی مقدمات میں بھی مطلوب رہے اور انہوں نے کافی عرصہ روپوشی کی زندگی گزاری۔ صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ہونے کی وجہ سے انہیں صدر کا چیف سیکیورٹی آفیسر مقرر کیا گیا۔ صدر کے سیکیورٹی آفیسر ہونے کی وجہ سے بلال شیخ کئی مقامات پر جہاں صدر کے ساتھ نظر آتے تھے بلکہ بلاول بھٹو زرادری کے ساتھ بھی اہم مقامات پر موجود رہتے تھے۔