تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جن افراد اور اقوام نے اپنی حالت سنوارنے کی کوشش نہیں کی وہ مٹ کر رہ گئی۔ پینسٹھ سال سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان مسلسل مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ احساس رکھنے کے باوجود اگر ہم نے کچھ نہ کیا تو فنا ہو جاتا ہمارا مقدر بنے گا۔ اقوام کو اٹھنے اور ابھرنے کے لیے ہمیشہ اپنے زور ِ بازو سے کام لینا ہوتا ہے اور یہ قوت بے غرضی، قربانی، حب الوطنی اور جذبے کے ساتھ موثر ہوتی ہے۔ یقینِ محکم عملِ پہیم محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں کسی مصیبت کے وقت آپ کو کسی ہمایتی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ خود ہی اپنے سب سے بڑے حمایتی ہیں۔ کوئی دوسرا آپ کی اتنی مدد نہیں کر سکتا جتنی مدد آپ اپنی کر سکتے ہیں۔ ہاں اگر آپ کو کوئی بیدار انسان یا گرو مل جائے وہ آپ کی مدد ضرور کر سکتا ہے۔
اپنی مدد آپ کرتے وقت یہ نہ سوچیں کہ آپ اکیلے ہیں اور بے یارو مددگار ہیں۔ بس یہ اکیلا پن ہی آپ کو تبدیلی کا موقع فراہم کرے گا۔ جو شخص یہ سوچتا ہے کہ اس صورتحال کا کوئی بدل نہیں اور ان ضرر رساں حالات کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا, وہ شخص غلط لائنوں پر سوچ رہا ہے۔ جس صحت مند شخص کے اندر کوئی مخالفت نہیں, اس کی باہر سے بھی کوئی مخالفت نہیں کر سکتا۔ اشفاق احمد، بابا صاحبا۔ صفحہ نمبر 553 اپنی مدد آپ کرنیکا منفرد مظاہرہ : اگر آپ ایک مصور ہوں تو کبھی نہیں چاہیں گے کہ آپ کا کام کو کسی معروف آرٹ گیلری تک پہنچنے میں دہائیاں لگ جائیں، ایسا ہی کچھ پولینڈ کے طالبعلم نے سوچا اور ایک منفرد حل نکالا۔
Poland
پولینڈ کے جنوب مغربی شہر واروکلا میں اس نوجوان مصور اینڈ ریزج سوبپان کو جب مستقبل میں تاریکی نظر آئی تو اس نے معاملہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ تو اس نے کیا کچھ ایسا کہ آرٹ گیلری میں جب محافظوں کی توجہ کسی اور جانب مبذول ہوئی تو اس نے خاموشی سے اپنی تصویر وہاں آویزاں کر دی۔ حیرت انگیز طور پر گیلری کے حکام بھی نئی تصویر سے 3 دن تک واقف نہیں ہو سکے، تاہم جب انہیں اس کا اندازہ ہوا تو وہ نوجوان مصور کی تخلیقی سوچ سے بہت متاثر ہوئے۔ ان کے بقول اس سے ہمارے نوجوان نسل کے مصوروں کی انفرادیت کا اندازہ ہوتا ہے جو اپنا کام جلد سے جلد گیلری میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ تو ثابت ہوا کہ اپنی مدد آپ کرنے کا محاورہ ہر دور کا آفاقی اصول ہے بس حکام مہربان ہونے چاہیے۔ اسی طرح اپنی مدد آپ کے متعلق میں اپنے گائوں کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ ہمارے گائوں میں بوائز پرائمری سکول کی عمارت کافی خستہ حال ہو گئی تھی جس کی وجہ سے لوگوں نے بچوں کو یہاں تعلم حاصل کرنے کے لیئے بھیجنے کے بجائے دوسرے سکولوں کا رخ کر لیا۔
جس کی وجہ سے سکول میں بچوں کی تعدادنہ ہونے کے برابر ہوگئی جبکہ تین ٹیچر اس سکول میں ملازمت پر تھے۔ اس سنگین صورت حال کو دیکھتے ہوئے گائوں کے لوگوں نے متحد ہو کر فیصلہ کیا کہ ہم خود اپنی مدد آپ کے تحت اس سکول کی عمارت کی مینٹیننس کرتے ہیں کیونکہ حکومت نے اس کام کے لیے کوئی گرانٹ نہیں جاری کی۔ گائوں کے لوگوں کو ڈر یہ تھا کہ اگر اس عمارت کو ٹھیک نہ کیا گیا تو یہاں پڑھنے والوں کی تعداد ختم ہو جاتے گی جس سے سکول ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔اسی ڈر سے گائوں کے لوگوں نے عمارت کی مینٹیننس کے لیے متحد ہو کر پیسے اکھٹے کیے اور سکول کی عمارت ٹھیک کی جس کے بعد لوگوں نے اسی سکول میں اپنے بچوں کو داخل کرانا شروع کر دیا جو بند ہونے کے قریب تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اگر ہم لوگ متحد ہو کر اور اسے اپنا کام سمجھ کر نہ کرتے تو جلد ہی اس سکول کا نام مٹ جاتا۔
اسی طرح اگر محلے کی سطح پر ہر فردگروپ کی صورت صفائی ستھرائی، غریبوں کی مدد اور ضرورت کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت کام کرے، تو ہمارے معاشرے کو حکومت کے بغیر بھی سدھرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ پاکستان کو اس وقت بہت سے مسائل کا سامنا ہے جن میں دہشت گردی، لا قانونیت، مہنگائی، لوڈشیڈنگ۔ بے روزگاری اور بڑھتے ہوئے جرائم اہم ترین ہے جبکہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے عوام نے تمام دارومدار اور ذمہ داری حکومت پر ڈالی ہوئی ہے کہ یہ تمام مسائل صرف گورنمنٹ نے ہی حل کرنے ہیں۔ ایسا ہر گز ممکن نہیں ہے کیونکہ جب تک عوام اپنی بہتر ی کے لیے خود تگ و دو نہیں کرے گی تب تک یہ معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ ہماری قوم کے حالات بدل سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ ہم سب کو (عوام اور حکومت) کو مل کر محنت کرنی ہو گی۔ بقول اقبال : خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا