آمنہ آئی ٹی میں ماسٹر کر کے فارغ ہی ہوئی تھی کہ اس کے گھر میں اس کی شادی کے لیے رشتے آنا شروع ہو گئے کچھ اس کی کلاس فیلو لڑکیوں کے بھائی تھے اور کچھ جاننے والوں کی بہت اچھی فیملی کے لڑکوں کے پرپوزل تھے اس کیلئے لیکن اس کے ابو نے صاف صاف بول دیا کہ وہ اپنی فیملی سے باہر کبھی بھی نہیں دیں گے چاہے کچھ بھی ہو جائے آمنہ کی امی جان نے بہت بار کہا بھی کہ ایک مرتبہ آمنہ سے بھی پوچھ لیں کیوں کہ ان کے اپنے خاندان میں ایسا کوئی پڑھا لکھا نہیں تھا لیکن اس کے ابو نے سختی سے منع کر دیا کہ آمنہ وہی کرے گی جیسا اسکے گھر والوں کی مرضی ہے۔اس کے ابو نے صاف صاف بول دیا کہ آمنہ کو پڑھانے کا مطلب یہ نہیں بس وہ بالکل ہی آزاد ہے اور دوسری بات کہ ہم خاندان سے باہر کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں چاہے کچھ بھی ہو جائے میں برادری میں کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رھوں گا۔
میری ناک کٹ جائے گی۔ کچھ ہی دنوں میں اس کی شادی ابو کے ایک کزن کے بیٹے سے کر دی گئی جو مشکل سے میٹرک پاس بھی نہیں تھا ایک جگہ اس کی دوکان تھی ابو نے کہا کہ لڑکا اچھا کماتا ہے میری بیٹی بہت خوش رہے گی سو آمنہ کی شادی میں اس سے پوچھنا تک بھی گوارہ نہیں کیا گیا۔ شادی کے بعد آمنہ نے کافی دفعہ اپنے شوہر سے اجازت بھی لینے کی کوشش کی کہ وہ کوئی جاب کرے یا پھر اپنی آئی ٹی کی فیلڈ میں آگے بڑھے مگر اس کے شوہر نے ہمیشہ ایک طنزیہ سی مسکراہٹ دی اور کوئی جواب نہیں دیا آمنہ کا شوہر بس اپنے کاموں میں ہی مصروف رہتا تھا کبھی اس نے اپنی زندگی میں آمنہ کو وہ اہمیت بھی نہیں دی جو ایک عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا خاوند اس کا خیال رکھے اسے وقت دے اسے احساس دلائے کہ وہ اس سے بہت پیار کرتا ہے۔
آمنہ نے کافی دفعہ سوچا گھر میں اپنی امی سے بات کرے مگر وہ کیا کر سکتی تھی سوائے آمنہ کو دلاسہ دینے کے سو آمنہ نے بس چپ سادھ لی اور اپنی خواہش کو دل میں ہی دفن کر دیا۔ کیونکہ وہ اورکر بھی کیا سکتی تھی سوائے اس کے کہ اپنی اولاد کی خاطر اور ماں باپ کی خاطر وہ اپنی سب خواہشات کا گلہ گھونٹ دیتی سو اس نے ایسا ہی کیا۔ محترم قارئین یہ صرف ایک آمنہ کی کہانی نہیں ہے ہمارے یہاں ہر روز ایسی نجانے کتنی آمنہ ہیں جو یہ سب کچھ برداشت کرتی ہیں اور ان کی ہنسی ہمیشہ کے لیے گم ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے والدین کے سامنے یا پھر بڑوں کے سامنے کبھی بھی منہ نہیں کھولتی ہیں لیکن ان کے دل پر کیا گزرتی ہے ان کے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا ہے۔ آپ کبھی اپنے ارد گرد نظر دوڑایئے آپ کو ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی۔ جہاں برادری سسٹم کی وجہ سے خواتین کے ساتھ ایسا کچھ ہوتا ہے۔ آپ کو اپنے خاندان میں ایسی کئی مثالیں مل جائیں گی۔
Female Doctor
بعض دفعہ تو لڑکی ڈاکٹر بھی ہو گی یا بہت پڑھی لکھی بھی ہو گی توبھی اس کی شادی کسی ان پڑھ یا کسی دوکاندار یا بس نارمل سی تعلیم والے لڑکے سے کردی جائے گی بلکہ بعض دفعہ بالکل ہی اجڈگنوار سے کر دی جاتی ہے اس کی مرضی بھی نہیں پوچھی جاتی۔ وہ بندہ اس کو ذلیل کرے یا عزت دے اس کی مرضی ،ان کی بنے یا نہ بنے۔بعض دفعہ لڑکا بہت پڑھا لکھا ہو گا لیکن اس کی شادی کسی ان پڑھ لڑکی سے کروا دی جاتی ہے۔ وہ لڑکی اس کے ساتھ بعض دفعہ تو ٹھیک ہو جاتی ہے لیکن بعض دفعہ ہر بات میں لڑائی کے لیے تیار ہوتی ہے اور وہ لڑکا گھر سے باہر ہی سکون محسوس کرتا ہے۔اس بات کا اثر آنے والی نسل پر پڑتا ہے ان پر پوری توجہ نہیں دی جا سکتی ہے باپ کچھ اور کہتا ہے اور ماں کی مرضی کچھ اور ہوتی ہے۔یہ سوچ کا اختلاف ہوتا ہے یا ضد لیکن اس کا اثر بچوں کی تربیت پر بہت برا پڑتا ہے۔
وہ تعلیم پر پوری طر ح توجہ نہیں دے سکتے ہیں۔ بچے بگڑ جاتے ہیں ان کا دھیان تعلیم پر نہیں رہتا ہے۔یہ وہ پہلو ہے جو اگلی نسل پر پڑتا ہے لیکن اس کے علاوہ اس لڑکے اور لڑکی کی زندگی بھی بس روبوٹ کی طرح ہوتی ہے بس روکھی سی نہ پیار نہ محبت بس سمجھوتہ۔ وہ سب کے سامنے خوش رہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اندر سے بہت اکیلے ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ لڑکی یا لڑکا کسی اور میں دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ تعلیم کے حوالے سے یا پھر سوچ کے حوالے سے ان کی آپس میں انڈر سٹنیڈنگ بھی اچھی ہوتی ہے لیکن صر ف خاندان ایک نہ ہونے کی وجہ سے ان کے گھر والے اس بات کو قبول نہیں کرتے ہیں۔ اگر ہم ذات پات کے سسٹم کو دیکھیں تو وہ پاکستان انڈیا میں ہندو کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ہم اس کا بہت زیادہ اثر لے چکے ہیں جس طرح ہندو میں برہمن کھشتری، ویش اور شودر ہوتے ہیں اور ان میں بھی عزت زات کے حساب سے کی جاتی ہے اور رشتے ناتے بھی زات سے باہر سوچے بھی نہیں جا سکتے ہیں۔
اگر کوئی سوچے تو قتل تک کر دیا جاتا ہے ویسے ہی ان کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ہم بھی راجہ،ن ائی، موچی، مصلی، آرائیں ملک اور اسی طرح کی اور فیملیز میں بٹ چکے ہیں اگر ہم اسلام کو دیکھیں تو اسلام نے ذات پات کے سسٹم کو آکر ختم کیا اللہ تعالی فرماتے ہیں اے لوگو ہم نے آپ کو ایک مرد اور ایک عورت کی جوڑٰ ی سے پیدا کیا اور تم کو قوموں اور قبیلوں میں بانٹا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو مگر تم میں سے افضل اور اللہ کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ نیک ہے اللہ تعالیٰ کو مکمل علم اور پہچان ہے (القرآن ) آپ ۖنے اپنے آخری خطبہ میں فرمایا۔ تمام انسان حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں کسی عربی کو کسی عجمی یا کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں نہ کسی کالے کو کسی گورے پر نہ کسی گورے کو کسی کالے پر سوائے تقوٰی کہ۔
(بخاری )میں اس بات سے انکار نہیں کرتا کے والدین غلط فیصلے کرتے ہیں لیکن اسلام نے اس بات کی بھی اجازت دی ہے کہ مرد اور عورت کی مرضی معلوم کر لی جائے مگر ہمارے ہاں اس بات کی طرف دھیان ہی نہیں دیا جاتا ہے بلکہ بہت بڑے بڑے اسلامی گھرانے بھی اب اس زات پات کے سسٹم میں پوری طرح دھنس چکے ہیں کسی اچھی جگہ سے کسی لڑکے یا لڑکی کا پرپوزل ہو گا بھی تو برادری میں ناک کٹ جائے گی فلاں کیا کہے گا فلاں کیا کہے گا بس اس ڈر سے ہم اپنے فیصلے صحیح طر ح نہیں کر پاتے ہیں دیکھیں اسلام نے برتری کا معیا رتقوٰی پر رکھا ہے لیکن ہم نے خاندان پر بنا دیا۔ ایک منٹ کے لیے سوچیے کہ تکبرصرف اورصرف اللہ تعالیٰ کی زات کے لیے مخصوص ہے اور اللہ تعالیٰ کی زات کے علاوہ اگر کسی نے تکبر کیا تو اس کو سزا ملی ہم نے بھی بس خاندان کی وجہ سے تکبر شروع کر دیا ہے اپنی زات کو سب سے اعلیٰ سمجھنا اور باقی سب کو اپنے سے کمتر سمجھنا کل کو اللہ تعالیٰ نے قیامت کو اس بات کی بھی سزا دی تو ہمارا کیا ہو گا ہم کہاں جائیں گے۔ آپ ۖنے ارشاد فرمایا۔ تم میں سے ہر ایک کو نگہبان بنایا گیا ہے اور قیامت والے دن اس سے اسکی رعایا کے متعلق سوال ہو گا۔
آپ سے بھی سوال ہو گا بچوں کی تربیت شادی سب چیزوں کا اگر ہماری آج کی غلطی سے ہمارے بچوں کی زندگی خراب ہو گی تو کل کو ہم نے جواب دہ ہونا ہے۔کسی ایک کو آگے بڑھنا ہے اس سسٹم کو تبدیل کرنا ہے وہ ہم سب میں سے کسی کو کرنا ہے اس بات میں ہمارے علما کو بھی حصہ لینا ہے اور ہم میں سے ہر شخص کو اپنی اپنی جگہ پر اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ ہمیں حضورۖ کی امت بن کر سوچنا ہو گا راجہ، یا ملک بن کر نہیں۔