کراچی (جیوڈیسک) محمد رفیق مانگٹروسی نشریاتی ادارےآر ٹی کے مطابق پاکستان میں ہیروئن کا نشہ خوراک سے سستا ہے، سالانہ ایک ارب ڈالر مالیت کی ہیروئن پاکستان کی کھلی منشیات کی صنعت سے فراہم کی جاتی ہے اور اس صنعت کا انحصار تباہ حال افغانستان کی نقد آور فصل سے ہے۔پاکستان میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ہیروئن خوراک سے سستی اور با آسانی دستیاب ہے۔
پاکستان میں چالیس لاکھ(چار ملین) سے زائد لوگ منشیات کے عادی ہیں۔ لیکن ان کو اس لت سے نکالنے کے لئے بحالی کے 80 سے بھی کم کلینکس ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کراچی میں ہیروئن کے عادی افراد اپنی عادت کو چھپانے کی پروا نہیں کرتے۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ ایک خطرناک راستہ ہے۔کراچی کے ایک مقامی نوجوان عبداللہ نے دو ہفتے تک اپنے والد کو تلاش کیا جو ہیروئن کا عادی تھا، بالآخر کراچی کے سب سے بڑے مردہ خانے میں اس کو اپنے والد کی لاش مل گئی۔
منشیات کے عادی افراد کی مدد ہیروئن کی طلب میں کمی کر کے کی جاسکتی ہے لیکن کراچی کی گلیوں اور سڑکوں پر اس کی کو ئی کمی نہیں۔ ہیروئن کے اہم جزو افیون کا سب سے بڑا پیداکرنے والا ملک افغانستان ہے دنیا بھر میں90 فی صد منشیات اسی ملک سے فراہم کی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تقریبا 40 فی صد منشیات پاکستان کے راستے اسمگل ہوتی ہیں عالمی ادارے کی 2013 کی ورلڈ ڈرگز رپورٹ کے مطابق پاکستان اور یوکرائن میں منشیات کے عادی افراد میں سب سے زیادہ HIVکی موجودگی 22 فی صد میں پائی گئی۔
جب کہ بھنگ پینے والوں کی تعداد میں پاکستانیوں میں 3.6 فی صد کے لحاظ سے اضافہ دیکھنے میں آیا۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 2011 میں منشیات سے 2 لاکھ 11 ہزار افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ اقوام متحدہ کی ڈرگز اینڈ کرائم کے مطابق ہیروئن اور افیون کی عالمی سطح پر تجارت 68 ارب ڈالر کی ہے جس میں صرف ہیروئن کی 61 ارب ڈالر ہے۔ سالانہ ایک کروڑ 60 لاکھ افراد افیون سے وابستہ منشیات استعمال کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں اس وقت دو کروڑ دس لاکھ افراد ہیروئن کے عادی ہیں۔