اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد ترقیاتی فنڈز کے استعمال میں وفاق کا کوئی کردار نہیں۔ وفاقی حکومت محصول وصول کرتی ہے این ایف سی کے تحت فنڈز صوبوں کو دئیے جائیں۔ سپریم کورٹ میں سابق وزرائے اعظم کے جاری کردہ ترقیاتی فنڈز سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کررہا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل افتخار گیلانی نے اپنے دلائل میں کہا کہ ترقیاتی منصوبوں کے پیسے نکال کر وزیراعظم کو نہیں دیے جاسکتے۔ وزیراعظم ارکان پارلیمنٹ اور دیگر لوگوں میں پیسے تقسیم نہیں کر سکتے، بجٹ میں منظور نہ ہونے والی اسکیموں کیلئے پیسے نہیں دیے جاسکتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عوامی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈ دینے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ صوابدیدی فنڈ کو ضابطے کے تحت خرچ کرنے کا حکم دے چکی ہے۔12 ویں ترمیم کے بعد بہت سے شعبے صوبوں کو چلے گئے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ جو چیزیں صوبوں کو دی گئی تھیں واپس لی جارہی ہیں۔ افتخار گیلانی نے کہا کہ لوگ صدر وزیراعظم کو سلام کرنے جاتے ہیں تو لفافہ ملتا ہے۔ افتخار گیلانی نے بتایا کہ بلوچستان میں وزیراعلی اور گورنر کیلئے خصوصی فنڈ رکھا جاتا ہے۔
آئین ایسے فنڈز کی اجازت نہیں دیتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ترقیاتی فنڈز کے عوام کو فائدہ نہ ہونے کا مطلب ہے ان کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ترقیاتی فنڈز سے بننے والے کمیونٹی سکولوں میں بھینسیں بندھی ہوتی ہے۔ ترقیاتی فنڈز میں تعلیم کو ترجیح ہی نہیں دی جاتی۔ افتخار گیلانی نے بتایا کہ فوزیہ بہرام نے بھینسوں کے سوئمنگ پول کے لیے فنڈز لیے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا بھینسیں اب تیراکی کریں گی۔
جو ان کے لیے پول بنایا گیا۔ راجہ پرویز اشرف کے وکیل وسیم سجاد نے بتایا کہ ضمنی گرانٹ بھی قومی اسمبلی منظور کرتی ہے اس کی حیثیت قانونی ہے۔ آئین میں ترقیاتی اخراجات کی مانیٹرنگ کا طریقہ کار موجود ہے۔ آڈیٹر جنرل اور قومی اسمبلی کی پی اے سی اخراجات کا حساب کتاب کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سابق وزیراعظم نے آخری 15 روز میں اربوں روپے نکلوائے۔
وزیراعظم کو اس لیے نہیں بٹھایا جاتا کہ ترقیاتی فنڈز استعمال کرے۔ عوامی پیسہ ضائع ہو رہا ہو تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 100 سے زائد بے نام لوگوں کو بھی پیسے جاری کیے گئے۔ الیکشن سے قبل سابق وزیراعظم کے جاری کردہ فنڈز کو ذرائع میں قبل ازانتخابات دھاندلی قرار دیا گیا۔
ساڑھے 6 ارب روپے غیر منتخب افراد کو دیے گئے۔آئین میں نہیں لکھا ساڑھے 6 ارب روپے من پسند لوگوں کو خوش کرنے کے لیے دیے جائیں۔ الیکشن قریب ہونے کے باعث یہ پیسے تقسیم کیے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے ساڑھے 6 ارب دیے تو آنے والے 12 ارب روپے جاری کریں گے۔ خدا کے واسطے عوام کا پیسہ اسطرح نہ لٹائیں۔ وسیم سجاد نے کہا کہ سپریم کورٹ ان اخراجات پر گائیڈ لائن جاری کرے۔