اسلامی جمہوریہ پاکستان میں میاں محمد منشا 2.5 بلین ڈالر کے مالیت کے ساتھ پاکستان کا سب سے امیر ترین آدمی ہے۔ مسلم کمرشل بینک اور منشا نشاط گروپ آف پاکستان جو سب سے زیادہ کپاس برآمد کرتا ہے کے مالک ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے موجودہ سربراہ صدر آصف علی زارداری 1.8 بلین ڈالرکے مالیت کے ساتھ اپنے ریاست کا دوسرا امیر ترین آدمی ہے۔ انور پرویز 1.5 بلین ارب ڈالر کے ساتھ پاکستان کا تیسرا امیر ترین شخص ہے۔بیسٹ وے کے چیئرمین اور UBL یو بی ایل بینک کے شریک حصے دار ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور موجودہ وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف دونوں بھائی ہیں عام طور پر شریف برادران کے نام کے ساتھ جانے جاتے ہیں۔
شریف براداران 1.4 بلین ڈالر کے مالیت کے ساتھ اپنے ملک میں چو تھے نمبر پر امیر ترین ہیں۔ صدر الدین ہشوانی 1.1بلین ڈالر کے ساتھ پاکستان کے پانچویں نمبر پر امیر ترین آدمی ہیں۔tycoon of Hospitality Industry in Pakistan ہاشو گروپ آف کمپنیوں، پرل کانٹی نیٹل اور میریٹ کے مالک ہیں۔ ناصر سچن ایک بلین ڈالر کے مالیت کے ساتھ چھٹے نمبر پر امیر ترین آدمی ہیں۔ Schon گروپ کے سربراہ ہیں، دبئی لیگون متحدہ عرب عمارات کے مالک ہیں۔ عبدالرزاق Yakoub ایک ارب ڈالر مالیت کے ساتھ پاکستان میں ساتویں نمبر پر امیر ترین شخص ہیں۔ دیگر سات چینل پر کنٹرول ہے۔ رفیق حبیب اور رشید حبیب 900 ملین ڈالر کے مالیت کے ساتھ پاکستا ن میں آٹھویں امیر ترین ہیں۔
Bank Al-Habib اور Habib Bank Limited کے ملک ہیں اس کے ساتھ انڈس موٹر کورولا کا بھی کاروبار کرتے ہیں۔طارق سایگل اور نشیم سایگل 850 ملین ڈالر کے مالیت کے ساتھ پاکستان میں نویں نمبر پر امیر ترین ہیں۔ دیوان یوسف فاروقی 800 ملین ڈالر کے مالیت کے ساتھ پاکستا ن کے دسویں نمبر پر امیر ترین شخص ہیں۔ آپ دیوان مشتاق گروپ کے مالک ہیں۔ اس گروپ میں تین ٹیکسٹائل یونٹس، ایک موٹر سائیکل مینو فیکچرنگ اور ملک میں سب سے بڑا چینی یونٹ کے مالک ہیں۔ سلطان احمد لاکھانی 800 ملین ڈالر کے مالیت کے ساتھ پاکستان میںگیارویں نمبر پر امیر تریں ہیں۔ ملک ریاض سربراہ بحریہ ٹاؤن بھی 800 ملین ڈالر کے ساتھ بارہویں نمبر پر آتے ہیں۔
Shbaz Sharif
افسوس ہوتا ہے جب موجودہ عوامی خادم اعلیٰ حضرات کی کئی سالوں جمع شدہ دولت کو دیکھتا ہو اوت ان کی عالی شانی و فضول خرچی کو دیکھتا ہوں تو مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ان کی عوام کے پاس کھانے کو روٹی نہیں ہے، پینے کو پانی نہیں، پہننے کوکپڑے نہیں ہے اور رہنے کو مکان نہیں مگر ان کے منتخب اور ان کو ملازم حضرات تو ایک ایسی زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں ان کے ہاں روٹی، کپڑے سڑ جاتے ہیں مگر عوام کو نہیں فراہم کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس پاکستان کے معیشت کے مطابق بہت زیادہ ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا ہوں کہ ان حضرات نے اتنی دولت کہاں سے کیسے کب بنائی ہے۔
اس بات میں زرا شک نہیں ہے کہ دولت انسان کی ضرورت بھی ہے۔ اس سے انسان کی زندگی جڑی ہوئی بھی ہے۔ اس کے بغیر انسان کا نہ علاج ہوسکتا ہے ،نہ ہی شادی بیاہ ہوسکتا ہے، نہ اسکے بغیر تعلیم حاصل کر سکتے ہیں ،نہ ہی معاشرے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاسکتے ہیں، نہ گھر کی تعمیر ہو سکتی ہے، نہ ہی کوئی مہمان نوازی ہو سکتی ہے، نہ ہی اس کو سکون آسکتا ہے، اور نہ ہی کوئی انسان ابھی بھوک او ر ہوس پوری کر سکتا ہے۔ سارا نظام اس پیسے چل رہا ہے۔ بات شروع اور ختم پیسے سے ہوتی ہے۔ اس پیسے کی مثال قبر تک جاتے وقت بھی پیسے کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ انسان کو کفن دیکر قبر میں رکھا جاتا ہے تو کفن پیسے سے ہی ملتا ہے۔
قبر کے بعد پیسہ کا وقار اور ضرورت ختم ہو جا تی ہے۔ پھر اعمال نامہ اور اعما ل نامے میں تمام اعمال ہی چلتے ہیں۔ پیسہ انسان کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی طرح کی ضرور ت ہے اس کے بغیر انسان مر جاتا ہے۔ عام طور پر انسان سے پیسہ کمانے کی وجہ دریافت کرتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ کھانے پینے رہنے سونے اور آنے جانے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پیسوں کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے اس کے بغیر انسان کے لئے مشکلات ہیں۔ مان لیتے جواب درست ہے۔ مگر کچھ لوگ حد سے بھی زیا دہ پیسہ کماتے ہیں۔ پیسہ کمانے کے لیے گمراہ ہو جاتے ہیں۔ کوئی سیاست میں آکر عوام کے ساتھ دھوکہ کرتا ہے غلط پالیسیاں مرتب کر کے عوامی تجوری سے مشترکہ دولت لوٹتے ہیں۔
Corruption
کوئی صحافت کی دنیا میں جا کر غلط اور جھوٹی تعریفیں کر کے پیسا کماتا ہے۔ کوئی غیر سرکاری این جی او یا فلاحی ادارے قائم کر بھی ادھر اُدھر کرپشن تو ضرور کرتا ہے۔ کوئی بیوروکریٹس کی شکل میں عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتا ہے۔ کرپشن کرتا ہے۔ تو کوئی جاگیر دار، وڈیرہ، سردار، نواب بن کراپنی رعایا کو پیار محبت کے ساتھ لوٹتے ہیں۔ کوئی چوری، ڈاکہ، لوٹ مار کرکے پیسہ کمانے کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ تو کوئی تاجر بن کر عوام سے دگنی قیمت میں اشیا ء فروخت کرتا ہے۔ تو کوئی ڈاکٹر بن کر جعلی ادویات اور مہنگے فیس کے ساتھ مریضوں کو لوٹتے ہیں۔ تو انجینئر بن، ٹرانسپورٹر بن کر بھی مختلف طریقوں لوٹتے ہیں۔ وزیر اعلی بلوچستان نواب اسلم خان رئیسانی نے بھی کیا خوب شان دار حقیقت بیان کیا کہ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے جعلی ہو یا اصلی۔
بالکل اسی طرح لٹیرا تو لٹیرا ہی ہوتا ہے۔ وہ ڈاکٹر بن کر لوٹے یا ڈاکو بن کر لوٹے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میںہرطرح سے کمزوز غریب کو لوٹتا جاتا ہے۔ ہم دولت اکھٹے کرتے کرتے اتنا زیا دہ اکھٹی کر جاتے ہیں کہ یہ دولت ہماری جانی دشمن بن جاتیہے۔ اور موت کے وقت ایک سیکنڈ بھی زندگی نہیں دلا سکتی ہے۔ تو ہم کیونکہ کسی کمزور غریب کو تکلیف دیکر اس کے حق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ جس کے پاس کے ایک وقت کی روٹی نہیں ہم اس کے ایسے لوٹتے ہیں۔ ہم کیونکہ حد سے زیادہ دولت اکھٹا کرتے ہیں اور بینکوں میں جمع کرتے ہیں مگر اپنے ارد گرد معاشرے میں بھوکے رات گزانے والوں کی مدد تک نہیں کرتے ہیں۔ اتنا پیسہ کس کام ہے کیوں اپنی پچھلے آنے والی نسل کے لیے سوچتے ہیں؟ کیا ہم اُن پرندوں، جانوروں سے سبق نہیں سیکھتے ہیں جوآج کے لیے سوچتے ہیں۔ اپنی ضرورت پوری کرکے دوسروں کے حوالے کرتے ہیں ۔اور خالی چونچ گھر لوٹ جاتے ہیں۔ دوسرے دب اللہ پر توکل کرنکلتے ہیں۔اس حوالے سے شیخ سعدی نے کیا خوب فرمایا ہے کہ توکل سیکھنا ہے تو پرندوں سے سیکھو کہ وہ جب شام کو گھر جاتے ہیں تو ان کے چونچ میں کل کے لیے کوئی دانا نہیں ہوتا ہے کیا ان امیر ترین لوگو ں کو ا س پرندے سے بھی کم ایمان ہے پرندہ کل کا نہیں آج کو سوچتا ہے اور اپنی ضرورت پورا کرنے پر دوسرے پرندہ کو چھوڑتا ہے اور خالی چونچ لیکر چلا جاتا ہے۔
Allah
نہ چونج میں کل کے لیے دانا نہیں لے جاتا، کیونکہ اس کو یقین ہوتا ہے آج کی طرح اللہ کل کو بھی اس کو اس طرح رزق دیگا۔ ہم انسان اتنے بے فکر کیوں ہیں ؟کسی کے گھر میں سال بھر کے لیے اناج ہوتا ہے تو کوئی ایک وقت کی روٹی کے لیے ترس رہا ہوتا ہے۔جو رات بھر بھوکا سوتے ہیں۔ کسی کے گھر میں صندوق بھر زیورات ہوتے ہیں تو کوئی اپنی بیٹی کو گھر سے رخصت کرتے وقت چھوڑی دینے کے لیے بھی پریشان ہوتاہے۔ کسی کے گھر، بینک میں لاکھو ں روپیہ ہوتے ہیں تو کوئی ایک ایک روپیہ کے لیے لوگوں کے سامنے بھیک مانگ رہے ہوتے ہے۔کوئی اپنی جسم بیچتا ہے تو کوئی اپنی ضمیر۔ کوئی لاکھوں کا سوٹ خریدتا ہے۔
تو کوئی اپنی مردے کو کفن دینے کے لیے بھی پریشان ہوتا ہے۔ کسی کے بچوں کے لیے اربوں روپیہ بینکوں میں محفو ظ رکھے ہیں تو کسی کے بچے ایک روپیہ کے لیے ترس رہے ہیں۔ایک طرف نصف پاکستان غربت میں پھنسے ہوئے ہیں، جن کے پاس دو وقت کی روٹی کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں، اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور نہ ہی علاج و معالجہ کے لیے کوئی چند روپیہ اضافی ہوں۔ فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی کی اسلامی دنیا میں ایک عظیم حکمرانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ چار ملکوں پر بادشاہ رہنے والے کا جب انتقال ہوا تو گھر میں کفن کے لیے پیسے موجود نہیں تھے۔اور ایک امام بزرگ نے کچھ پیسے ڈال کر کفن کا بندوبست کیا۔ اسے کہتے ہیں۔ خدا پر توکل ۔اسے کہتے ہیں ایک مسلمان۔ اسے کہتے ہیں عزت مرتبہ۔
ایسے لوگو ں کو دنیا یاد کرتی ہے۔ نہ کہ اربوں روپیہ جمع کر کے دولت مند بننے سے انسان کو دنیا یاد کرتی ہے نہ عزت دیتی ھیصدر آصف علی زرداری، وزیر اعظم میاںنواز شریف، عمران خان، الطاف حسین، مولانا فضل الرحمن، سید منور حسین، چوہدری شجاعت سمیت تمام سیاستدان و حکمرانوں کو دولت اکھٹا کرنا زیب نہیں دیتا ہے۔ کم از کم سلطان صلاح الدین ایوبی سے تو سبق سیکھیں۔ان لوگوں کو اس وقت تک کھانا نہیں چایئے جب تک پورا پاکستان پیٹ بھر کر نہیں سوتا ہے۔ ان لوگوں کو اُس وقت تک سونا نہیں چاہئے جب تک پورا پاکستان سکون کی نیند نہیں سوتا ہے۔ کیونکہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم عوام کی خدمت کر رہے ہیں یا کریںگے۔
خدمت ایسے نہیں ہوتا ہے ۔جیسے ایک ایک جلسے پر 50 کروڑ خرچ کرتے پھریں اور دوسری جانب عوام کیا حالت ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ ہم تمام مسلمانوں کو پرندوں اور جانوروں سے سبق سیکھنا ضروری ہے کہ رزق کا زمہ اللہ نے لیا ہے تو اُس پر توکل رکھیں کہ وہ ہمیں ضرور رزق دیگا۔ کیونکہ اربوں لوگ پیدا ہو کر مر چکے ہیں لیکن کوئی بھوک سے نہیں مرا ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ رزق دینے والا ہے رازق ہے۔ ہمیں کل کی نہیں آج کی فکر کرنا چاہئے تاکہ ہمارے معاشرے میں مساوات پیدا ہو جائے نہ کہ کسی کے گودام میں گندم خراب ہو جائے اور کوئی افلاس سے ہلاک ہو جائے۔ ا س میں کوئی شک نہیں کہ لاکھوں امیر لوگوں کے ساتھ ا یسا ہی ہو رہا ہے۔ ہمارے ملک کے سربراہ بلین ڈالرجمع کیے ہوئے ہیں مگر رعایا ٢ وقت کی روٹی کے لیے ترس رہی ہے۔