ن لیگ کے سربراہ اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی رواں حکومت کو اِس کے ابتدائی 35/30 ایام ہی سے مجھ سمیت غالبا بیشتر لکھاریوں نے اپنے اپنے نقطہ نگاہ سے تنقید کا نشانہ بنایا، اب اِس زمرے میں آنے والے قلم کاروں کی نیتوں کا تو مجھے کچھ پتہ نہیں، ہاں البتہ آج میرااپنے متعلق اللہ کو حاضرو ناظر جان کر یہ موقوف ضرور ہے، کہ میں نے جتنی بھی تنقیدیں کیں ہیں، وہ تنقید برائے مقصدو اصلاح تھیں اور اِسی طرح آئندہ بھی رہیں گیں۔ اور اِس کے ساتھ ہی میں اپنے قارئین حضرات اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کو یہ بھی باور کرنا چاہتا ہوں کہ میرا کسی بھی سیاسی و مذہبی جماعت یا صوبائی یا علاقائی و شہرو دیہات کے کسی گروپ سے کو ئی وابستگی نہ ہے اور نہ ہی پہلے کبھی تھی۔
اور اِسی طرح آئندہ ہوگی، مگر کوئی اِس کا یہ بھی مطلب نہ لے کہ میں کسی پر تنقید کروں تو کوئی ناراض ہوجائے، اور جب کسی کے مجموعی طور پر ملک اور قوم کی بہتری کے لئے کئے جانے والے اچھے اقدامات اور کاموں کی تعریفوں کے پل باندھ دوں یا کسی کی شان میں قصیدے رقم کردوں یا گانا شروع کردوں تو کوئی یہ سمجھے کہ کوئی لالچ دی گئی ہوں گی، یا اِسے کہیں سے کچھ ملا ہوگا۔ جیساکہ ہمارے یہاں ماضی اور حال میں ہوتا رہا ہے اور ہورہا ہے اور ممکن ہے کہ مستقبل بھی میں یہ سلسلہ جاری و ساری رہے، مگر خدا کی قسم کہیں سے میرے متعلق کوئی یہ کہہ دے کے اِس حقیر فقیر اور بے توقیر بندئے ناچیز کو کہیں سے کچھ نوازہ گیا ہے۔
یا کہیں سے نوازنے کی پیشکش ہوئی ہے، تو میں لکھنا چھوڑدوں گا، ہاں البتہ کچھ مجھے گھور کر ضرور دیکھتے ہیں، مگر کہتے کچھ نہیں ہیں، یہ بھی اِن کی مہربانی ہے، ورنہ حق و سچ کہنے اور لکھنے والوں کا کیا بنتاہے، یہ بھی سب جانتے ہیں۔ بہر حال جب میں اپنی موجودہ نواز حکومت کے کسی یا بیشتر اقدامات اور کاموں سے متعلق تنقیدوں کے پہاڑ کھڑے کرسکتا ہوں تو میری یہ بھی تو ذمہ داری ہے کہ میں اپنا قلم جو مجھ سے یہ تقاضہ کرتاہے کہ میں غیرجانبدار رہوں اور وہ لکھوں جو صحیح ہے۔ تو قارئین حضرات آج میں نومولود نواز شریف حکومت پراپنی بے شمار تنقیدوں کے بعد اِس حکومت کے اس اقدام پر بالخصوص وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو سلام پیش کرناچاہ رہا ہوں۔
آج جن کے اقدامات سے یہ واضح ہورہاہے، کہ جوں جوں میاں صاحب کی حکومت آگے کی جانب رینگتے جارہی ہے، اِس کے اقدامات بھی ملک و قوم کی بہتری کے لئے شروع ہوتے محسوس ہورہے ہیں۔ آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موجودہ حکومت نے ملک بھر سے توانائی بحران سمیت لوڈ شیڈنگ کوجڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کئے ہیں، اور اول روز ہی سے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ملک کو درپیش توانائی بحران اوراِس کی شکل میں قوم پر لوڈ شیڈنگ کا جو عذاب نازل ہواہے اِس سے جلد چھٹکارے کے لئے ہوم ورک تیار کر لیا ہے، جن میں بیرونِ ممالک کا دورہ اور آئی پیز کو مطلوبہ رقم کی فراہمی جیسے سخت فیصلے بھی شامل ہیں اور جیساکہ اب تک وزیر اعظم نواز شریف پڑوسی ملک چین سمیت دیگر ممالک کے ہنگامی دورے بھی کر چکے ہیں۔
Load Shedding
اور اِسی طرح نواز حکومت کا ملک میں لوڈ شیڈنگ کی کمی لانے سمیت اِس کے بتدریج خاتمے کے لئے آئی پیز کو مطلوبہ رقم کی فراہمی کے علاوہ بھی کی گئیں کوششیں یقینا اپنی جگہہ اعتماد بخش اور قابلِ تعریف ہیں۔ اب توانائی بحران اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے اقدامات اور منصوبوں پر سالوں نہیں تو کم از کم کچھ عرصے کے لئے ہی تنقید نگاروں اور عوام کو بھی سوچنا چاہئے کہ مسئلہ چوں کہ کافی پرانا ہے، اِس لئے اِس کے حل کے لئے بھی کافی وقت درکار ہے، لہذا اِس صورتِ حال میں میراخیال یہ ہے کہ مجھ سمیت میرے دیگر تنقید نگار بھائیوں اور قوم کو بھی انتظار کرنا چاہئے۔
اور حکومت پر اپنی تنقیدوں اور بض و کینہ کی وجہ سے گرد اڑانے کا سلسلہ بند کر دینا چاہئے، اگر اِس کے بعد بھی کچھ نہ ہو اتو پھر حکومت پر تنقیدوں کے لئے اپنے قلم کو آزاد اور قوم کو اپنی زبانوں کو بتیس دانتوں کی گرفت اور اپنے ہونٹوں کے دروازوں سے بے لگام کرکے چھوڑ دینا چاہئے، مگر یہ کام تب ہوگا، جب ہم حکومت کو کچھ مہلت دیں گے، بغیر مہلت دیئے ، اگر ہم نے کچھ کیا تو پھر ہم خود قلٹی پر ہوں گے، اور حکومت مظلوم بن جائے گی۔ ہاں البتہ اب یہ اور بات ہے کہ نواز حکومت نے ملک میں توانائی بحران کی ذمہ دار آئی ییز کو مطلوبہ رقم فراہم بھی کردی ہے، مگر پھر بھی ملک میں لوڈ شیڈنگ کا بحران بدستور عذاب بنتا جارہا ہے۔
یعنی یہ کہ آج ایسا محسوس ہورہاہے، کہ گزشتہ دنوں جیسے ہی حکومت نے آئی پیز کو اِس کی مطلوبہ رقم دی ، اِس نے توانائی بحران اور لوڈشیڈنگ کا دورانیہ مزید بڑھا دیا ہے، آج اِس کے اِس فعلِ شنیع پر ایک عام پاکستانی یہ ضرور سوچ رہاہے کہ جیسے آئی پیز ماضی کی حکومت اور حکمرانوں کی طرح ہماری موجودہ حکومت کو بھی بے وقوف بنارہی ہے، اور آئی پیز اپنی سازش اور گٹھ جوڑ کی وجہ سے ملک میں دانستہ طور پر توانائی بحران اور لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ پیداکرکے کسی بیرونی سازش کا حصہ بن کرملک میں ایسے حالات پیدا کرنا چاہتی ہے کہ، ملک میں انارگی پھیلے اور ملکی معیشت کا ستیاناس ہو۔
کارخانے اور صنعتیں بند ہوجائیں، بے روزگاری بڑھے، لوٹ مار اور قتل وغارت گری پروان چڑھے، اور حکومتیں ناکام ہوں، تواب کیا وجہ ہے کہ آئی پیز اپنی مطلوبہ رقم ملنے کے بعد بھی بجلی بحران اور لوڈ شیڈنگ کو ختم کرنے میں کوتاہی برت رہی ہے، اِس سے تو یہ صاف ظاہر ہے کہ آئی پیز نے یہ سمجھ لیاہے، کہ ملک کو چلانے والے ہم ہیں، اور ہم جو چاہیں کرسکتے ہیں اور حکمرانوں سے اپنے مرضی کے فیصلے کروا سکتے ہیں، جن میں بجلی کے نرخوں میں بے تحاشہ اضافے کا فیصلہ کرانے سمیت اور دیگر اقدامات شامل ہیں، آج نواز حکومت کو آئی پیز اِس کی مطلوبہ رقم کی فراہمی کے بعد کے کسی دباومیں آئے بغیر ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ آئی پیزاِن کے سامنے گھٹنے ٹیک دے، اور جیسا حکومت کہے یہ ویساکرے، ورنہ حکومت آئی پیز کو گھر کا راستہ دکھائے۔
Pervez Musharraf
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف حکومت کاایک اور اقدام جس نے مجھے آج کا اپنا یہ کالم سلام نواز شریف نواز حکومت کو میرا ڈبل سلام لکھنے پر متحرک کیا وہ یہ ہے کہ آج وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے2006 میں آمر جنرل (ر) پرویز مشرف حکومت کے انتہائی شاطر اور مفاد پرست وزیراعظم شوکت عزیز کی شروع کی گئی (بندر بانٹ) وہ پالیسی جس کے تحت ہر وہ افسر جو گریڈ 22 میں جائے گا اِسے معمول کے ایک پلاٹ کے علاوہ گریڈ 22 میں جانے کی وجہ ایک کنال کا ایک اضافی پلاٹ اِسے منہ دکھائی اور سلامی کی مد میں ملے گا، اِس سابق وزیر اعظم کی یہ پالیسی ختم کردی ہے۔ اگرچہ اب تک اِس اسکیم کے تحت 236 پلاٹس اسلام آباد میں افسران کو بندربانٹ کی طرح نواز دیئے گئے ہیں۔
اور اب بھی گریڈ 22 کے 106 افسران جھولی پھیلائے، ہاتھ کھولے قطار میں کھڑے تھے، کہ وزیر اعظم نوا ز شریف کے طرف سے اِس پالیسی کے خاتمے کے بعد اِن کے ارمانوں پر اوس پڑگئی ہے، اور اِس کے بعد مجھے یہ یقین ہے کہ یہ وزیر اعظم سے ناراضگی کا اظہار بھی کرنے لگے ہوں گے، اور دعائیں بھی کررہے ہوں گے کہ نواز حکومت کا جلد خاتمہ ہوجائے، جس نے اِنہیں پلاٹ سے محروم کرکے اِن کے پیروں کے نیچے سے ایک کنال زمین کھینچ لی ہے، مگراِ سی کے ساتھ ہی مجھے اِس بات کا بھی پورا یقین ہے کہ میاں نواز شریف کے اِس اقدام سے قوم میں حکومت کا اعتماد ضرور بحال ہوا ہوگا، اور قوم یہ بھی ضرور سوچ رہی ہوگی۔
کہ اگر نواز حکومت نے آہستہ آہستہ رینگتے ہوئے، ایسے اور کئی اچھے اقدامات کئے تو پھر یقینا ملک میں بہتری کے امکانات روشن ہوں گے، اور قوم کو اِس بات کا بھی احساس ہوگا کہ یہ حکومت اپنے اقدامات اور منصوبوں سے کسی حد تک امیری اور غریبی کا فر ق بھی ختم کردے گی، مگر یہ کرنے کے لئے حکومت پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ قومی خزانے کو بھرنے اور اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے قومی اداروں سے کم گریڈ کے ملازمین کو اضافی بوجھ سمجھ کر نہیں نکالے گی، اور نہ ہی کم گریڈ ملازمین کی تنخواہوں اور اِنہیں ملنے والی مراعات میں کمی کرے گی۔
اگر اِس نے ایسا نہیں کیا جیساکہ میں نے اِسے مشورہ دیاہے اور قوم نے اِس سے امید باندھ رکھی ہے تو پھر سب سے پہلے میرا نواز حکومت کو ڈبل سلام۔ مگر اِس کے بعد بھی اگر نواز حکومت نے 106 بائیس گریڈ کے افسران کو پلاٹس سے محروم کرکے یہ سمجھ لیا ہے کہ اِس نے قوم کو دکھانے کے لئے کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دے دیاہے، اور اب یہ دیدہ دانستہ قومی اداروں سے کم گریڈ میں بھرتی ہونے والے لاکھوں غریب محنت کشوں کو نکال باہر کرے گی، تو پھر وہ یہ بھی سوچ لے کہ آج جو قوم اِسے ہاتھ اٹھاکر سلام پیش کررہی ہے، اِس کی توقعات کے خلاف کئے گئے اقدامات پر پھر یہ آئندہ کیا کرسکتی ہے یہ اِسے بھی اچھی طرح ذہن نشین رکھے۔