بتایا جاتا ہے محکمہ تعلیم پنجاب نے سرکاری تعلیمی اداروں ان کے نظام اور کارکردگی میں بہتری لانے کیلئے 6 نکاتی ایجنڈہ تشکیل دیا ہے جس میں کم تعداد والے سہولیات سے محروم سکولوں کو ختم کرنے یا پھر قریبی علاقے میں واقع دیگر سرکاری سکولوں میں ضم کرنے کی پالیسی زیر غور ہے جبکہ 30سال یا اس سے زائد عرصہ سروس مکمل کرنے والے سینئر اساتذہ کو ان کی مراعات دیتے ہوئے نوکری سے فارغ کردیا جائے۔ ایسے تمام اساتذہ کی لسٹیں طلب کرلی گئی ہیں۔ اخبارات کی رپورٹ کے مطابق ملک کی مجموعی تعلیمی صورتحال پر اگر نظر ڈالی جائے تو تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان کا لٹریسی ریٹ 41، سندھ کا 59، کے پی کے کا 50 اور پنجاب کا 60 فیصد ہے۔
ایک سروے کے مطابق اس وقت پورے ملک کے تعلیمی اداروں کی مجموعی تعداد 216,490 ہے جن میں سے بلوچستان میں 10381، پنجاب 106,435، سندھ 46,862 اور خیبرپختونخوا میں 36,029 تعلیمی ادارے ہیں۔ یوں پنجاب میں 48 فیصد ، سندھ میں 22 اور سرحد میں 17 فیصد تعلیمی ادارے ہیں جبکہ بلوچستان میں تعلیمی اداروں کی شرح صرف 5 فیصد بنتی ہے۔ اتنی بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام کسی قوم ، ذات اور برادری کا نام نہیں ہے کہ اس میں پیدا ہونے والا ہر آدمی آپ سے آپ مسلمان ہو اور مسلمان بننے کے لئے اس کو کچھ کرنا نہ پڑے، جس طرح شیخ یا سید خاندان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ خود بخود شیخ یا سید ہوجاتا ہے۔
اور اس کو شیخ یا سید بننے کے لئے کچھ کرنا نہیں پڑتا، بلکہ اسلام نام ہے اس دین اور اس طریقے پر زندگی گزارنے کا جو اللہ کے سچے رسول ا اللہ تعالیٰ کی جانب سے لائے تھے۔ علامہ اقبال کے تعلیمی تصورات یا فلسفہ تعلیم کے متعلق کتب و مقالات کی شکل میں اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں تعلیم کے اصطلاحی مفہوم سے کہیں زیادہ تعلیم کے عام مفہوم کوسامنے رکھاگیا ہے۔ یعنی جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں درس و تدریس، تعلیم یا طلبہ و مدارس کے توسط سے پیدا ہونے والے مسائل سے بحث کرنے کے بجائے عام طور پر وہی باتیں کہی گئی ہیں جواقبال کے فکرو فن یا فلسفہ خودی و بیخودی یا تصور فرد و جماعت کے حوالے سے، ان کو ایک بزرگ مفکر یا عظیم شاعر ثابت کرنے کے لئے کہی جاتی ہیں۔
حالانکہ ان باتوں کا تعلق، تعلیم کے اصطلاحی مفہوم سے نہیں بلکہ تعلیم کے اس عام مفہوم سے ہے جس کے دائرے میں ہر بزرگ اور صاحبِ نظر فلسفی یا شاعر کا پیغام درس حیات آ جاتا ہے۔مانا کہ اقبال کے تصور تعلیم کے ضمن میں ایسا کرنا بعض وجوہ سے ناگزیر ہے اور اقبال کے مقاصد تعلیم کے تعین کے سلسلے میں ان کے فلسفہ خودی و بیخودی یا فلسفہ حیات کو بحرحال سامنے رکھنا پرتا ہے۔ لیکن اقبال کے عام فلسفہ حیات کو اصطلاحی معنوں میں تعلیم یا فلسفہ تعلیم سے تعبیر کرنا یا محض ان دلائل کی بنیاد پر انہیں ایک عظیم مفکر تعلیم یا ماہر تعلیم کہنا مناسب نہیں معلوم ہوتا۔با ایں ہمہ، اقبال کے تعلیمی افکا ر سے کلیتاً صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
Education
انہوں نے تعلیم کی فنی اور عملی صورتوں پر غور کیا ہے مسائل تعلیم کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ اپنے فلسفہ حیات میں مناسب جگہ دی ہے۔ تعلیم کے عام معنی و اثرات پر روشنی ڈالی ہے اس کے ڈھانچے اغراض اور معیار کو موضوع گفتگو بنایا ہے اور اپنے عہد کے نظام تعلیم پر تنقیدی نگاہ ڈالی ہے۔ مدرسہ، طلبہ، اساتذہ اور نصاب، سب پر اظہار خیال کیا ہے صرف مشرق نہیں، مغرب کے فلسفہ تعلیم اور نظام کار کو بھی سامنے رکھا ہے۔ دونوں کا ایک دوسرے سے مقابلہ کیا ہے ان کے درمیان حد فاضل کھینچی ہے۔ خرابیوں اور خوبیوں کا جائزہ لیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ زندگی کو کامیاب طریقے سے برتنے اور اس کی مزاحمتوں پر قابو پالینے کے لئے کس قسم کی تعلیم اور نظام تعلیم کی ضرورت ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانان ہند نے کچھ اپنی غفلت و سستی اور کچھ حالات کے جبر کے نتیجہ میں تعلیم پر وہ توجہ نہیں دی جس کی وہ مستحق تھی۔ لہٰذا وہ کوئی ایسا ڈھانچہ تیار کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے جس میں اْن کی نسلیں دین سے وابستگی کے ساتھ عصری علوم میں مہارت حاصل کرسکیں۔ دینی اور عصری علوم کی تفریق نے صورت حال کو مزید پیچیدہ بنادیا۔ ایک طبقہ دینی تعلیم کے حصول کو بے معنی اور مخصوص لوگوں کا وظیفہ سمجھتا رہا تو دوسرے طبقہ نے عصری علوم کو شجر ممنوعہ بنا دیا۔ اس متضاد فکری رویہ نے مسلمانان ہند کو شدید نقصان پہنچایا۔ وہ طبقہ جس نے دینی علوم کو عزیز جانا اور خود کو اسی دائرہ میں محدود رکھا۔
عصری علوم حاصل کرنے والوں اور عصری تعلیمی اداروں سے اس کا رشتہ استوار نہ رہ پایاجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ ادارے اور ان سے وابستہ افراد مذہب کی گرفت سے آزاد ہوگئے اور اگر دل سے مسلمان رہے بھی تو ان کا دماغ غیر اسلامی فکر کا حامل بن گیا۔ اس طبقہ کی بڑی تعداد اْن عصری اداروں سے الحاد و دہریت اور آزاد خیالی کے جراثیم لے کر نکلی اور سیکولر و مغربی نظریا ت کو ہی اعلیٰ و ارفع اور قابل وقعت سمجھنے لگی۔ اس کے جو مہلک اثرات مسلم معاشرہ پر پڑے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں نے اس کے تدارک کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے 1857 اور پھر آزادی کے بعد کے مخصوص حالات میں صورت حال کی سنگینی کو محسوس کیا۔
اور متعدد اقدامات کیے۔ لیکن یہ اقدامات اپنا تسلسل برقرار نہ رکھ سکے اور جس مربوط اور منظم انداز میں اس کے لیے جد و جہد جاری رہنی چاہے تھی وہ نہ رہ سکی۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب پورے ملک میں، خواہ شہر ہوں یا دیہات، ابتدائی تعلیم کے لیے چھوٹے چھوٹے مدارس اور مکاتب کا جال بچھا ہوا تھا اور وہاں سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہی طلبہ عصری تعلیمی اداروں کا رخ کرتے تھے۔ ان مکاتب کا کمال یہ تھا کہ یہ بہت کم عرصہ میں طلبہ کو اسلام کی بنیادی فکر سے روشناس کراکے ان کے دلوں میں اسلامی عقائد و اخلاق کی جڑیں اتنی مستحکم کر دیتے تھے کہ آگے چل کر کسی بھی ماحول میں رہتے ہوئے ان سے دین بیزاری کا خطرہ بڑی حد تک ختم ہوجاتا تھا۔
Allah Muhammad S.A.w
لیکن آج صورت حال بالکل بدل چکی ہے۔ اب ہر طرف انگلش میڈیم اسکولوں کا جال پھیلا ہوا ہے اور بچوں کو ابتدا سے ہی ان اسکولوں میں بھیجا جانے لگا ہے جہاں کے ماحول میں اللہ اور رسول کا نام بھی نہیں سنا جاتا۔ مگرپھر بھی لوگ بڑی بڑی رقمیں دے کر اپنے بچوں کو ان اداروں میں داخل کرانا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ادارے عیسائی مشنریز کے زیر انتظام چلتے ہیں جہاں بچے مسیح کی تصویر ک ے سامنے کھڑے ہوکر دعاکرتے ہیں، جہاں مخلوط تعلیم کا رواج ہوتا ہے اور لڑکیوں کے لیے ایسے یونیفارم کا انتخاب کیا جاتا ہے جس میں ٹانگیں کھلی ہوتی ہیں اور اسے ہی تہذیب و شائستگی کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔
جہاں فحاشی و عریانی کا نام تہذیب ہے اور جہاں پردہ اور نقاب کی تضحیک کی جاتی ہے اور ان کا استعما ل کرنے والوں کو رجعت پسند قرار دیا جاتا ہے، جہاں اسلامی تہذیب و تاریخ کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور جہاں مسلم بچوں کو اپنے مذہب کے تئیں احساس کمتری کا شکار بنایا جاتا ہے۔اب اگرکسی بچہ کو عمر کے تیسرے چوتھے سال میں ہی ایسے اسکولوں میں داخل کرا دیا جائے تو یہ سمجھنا دشوار نہیں ہے کہ اس پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ اس طرح کے اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے۔
جسے دسویں اور بارہویں کلاس پاس کرلینے کے باوجود قرآن مجید پڑھنا نہیں آتا ،اسے دعائیں بھی یاد نہیں ہوتیں اور اسلامی اخلاق و آداب سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ ان تعلیمی اداروں سے جو بچے تعلیم پاکر باہر نکلتے ہیں ان میں ایک اچھی خاصی تعداد ان کی ہوتی ہے جو نسلی مسلمان تو ہوتے ہیں لیکن شعوری مسلمان نہیں ہوتے۔ یہ صورت حال اس نسل کی ہے جس کے والدین اللہ کے فضل سے مذہبی ماحول سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب ذرا تصور کیجئے کہ مذہبی ماحول کے پروردہ والدین کے بچوں کی یہ صورت حال ہے تو اس کے بعد آنے والی نسل کا کیا حال ہوگا۔
وہ ان اداروں سے فارغ ہوکر منفعت بخش ملازمتیں تو حاصل کرسکتے ہیں کہ یہی اس کا منتہائے مقصود ہے لیکن اسلامی نقط نظر سے وہ اپنے اور اپنے معاشرے کے لیے نہ صرف غیر مفید ثابت ہوں گے بلکہ سنگین خطرات کا باعث بھی بنیں گے۔یہ اتنا سنگین مسئلہ ہے کہ اگر فوراً اس کے سد باب کی کوشش نہ گئی تو آنے والی نسل کا رشتہ مذہب سے بالکل منقطع ہوجائے گا اور وہ رسمی مسلمان بھی باقی نہیں رہے گی۔ پھر نہ جانے کتنے سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جنم لیں گے اور مذہب کا مذاق اڑائیں گے۔