کسی بھی ملک میں حکومت کے مقابلے میں اس ملک کی عوام بہت بڑی طاقت سمجھی جاتی ہے۔ اگر عوام حکومت اور اس کی پالیسیوں سے ناخوش ہو کر حکومت کا تختہ اُلٹنے پر آجائے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت اس عوامی سمندر کے سامنے بند نہیں باندھ سکتی۔ حال ہی میں اس کی تازہ مثال مصر میں پیش آئی جہاں حکومت مخالف عوام کے ایک جم غفیر نے مصر کے مشہور ومعروف تحریر سکواڈ پر احتجاجی دھرنا دیا, مگر وہ حکومت کا تختہ اُلٹنے میں ناکام رہے۔ اس لیے کہ عوام کی اکثریت ابھی بھی حکومت کی حامی تھی اور وہ مرسی کی حکومت گرانے کے حق میں نہیں تھے۔ مگر پھر یوں ہوا کہ فوج میدان میں اُتر آئی اور فوج نے (غیروں کے ایجنڈے کی تکمیل میں) اخوان المسلمون کی حکومت کا خاتمہ کر دیا اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت بنا دی۔ چونکہ عوام کی اکثریت حکومت کی حامی تھی لہٰذا اب مصر کی عوام اپنی ہی فوج کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی ہے۔
مصر کی سڑکوں پر عوام کا ٹھاٹھے مارتا سمندر دکھائی دے رہا ہے جن کا مطالبہ ہے کہ مصر کے صدر مرسی کو دوبارہ بحال کیا جائے۔ سیاسی ماہرین اب یہ پیشگوئی کر رہے ہیں کہ بادلِ نخواستہ مصری فوج کو عوام کا یہ مطالبہ ماننا پڑ ے گا اس لیے کہ فوج کے خلاف عوامی احتجاج میں شدت آرہی ہے جس سے صدر مرسی کے لیے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔ اسی تناظر میں ہم اگر پاکستانی عوام مے متعلق بات کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے کیونکہ ہم عوام کبھی ایک شخص کو حکومت میں لانے کے حق میں ہوتے ہیں تو کبھی دوسرے کو۔ 2008 کے الیکشن میں عوام نے بینظیر کی شہادت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا جس سے آصف علی زرداری بطور صدر اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم منتخب ہوئے۔
مگر جب حکومت نے کرپشن کے بڑے بڑے بازار گرم کیے، مسٹر ٹین پرسنٹ مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ بن گئے، پاکستان میں ہر طرف خون ریزی ہونے لگی، عوام مرنے لگے، لوڈشیڈنگ نے لوگوں کو خوکشیوں پر مجبور کردیا تو حکومت کی اس بری کارکردگی کو دیکھتے ہوئے عوام نے انہی لوگوں کو گالیاں دیں جو عوام کے ووٹوں سے ہی منتخب ہو کر ایوانوں تک پہنچے تھے۔ پیپلز پارٹی کی ناقص کارکردگی کو دیکھتے ہوئے عوام نے پینترا بدلا اور تہیہ کر لیا کہ آئندہ کسی نااہل شخص اور پارٹی کو اپنا نمائندہ منتخب نہیں کریں گے۔ جوں توں کر کے پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی حکومتی مدت پوری کر لی۔ اس کے بعد مئی کے گرم مہینے میں اگلے پانچ سال کے لیے الیکشن ہوئے تو اس کے نتائج دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔
Imran Khan
عمران خان جو پاکستان میں ایک باکردار لیڈر کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے اور عوام میں ان کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی مگر الیکشن میں عوام نے ایک بارپھر دھوکہ کھاتے ہوتے عمران خان کی جگہ آصف علی زرداری کی فوٹو کاپی نواز شریف کو منتخب کر دیا۔ ن لیگ نے الیکشن سے پہلے تو بے شمار وعدے کیے تھے مگر مرکز میں حکومت بنانے کے بعد کوئی ایسا کام نہیں کیا جا رہا جس سے عام شہری کو فائدہ ہو، مثلاً اس وقت لوگوں کو سستی اشیائے خوردونوش کی ضرورت ہے مگر پنجاب حکومت طالبات کو سہولیات کے لیے سکوٹیاں دینے جا رہی ہے۔ جس طرح پہلے اربوں روپیہ خرچ کرتے ہوئے لیپ ٹاپ دیے گئے، میٹرو بس سسٹم پر بھی پیسہ خرچ کر دیا گیا۔ اس لیے کہ اس قوم کو ابھی میٹرو بس کی نہیں بلکہ کھانے کیلئے آٹے، گھی اور چینی کی ضرورت ہے۔ جوشِ خطابت میں عوام سے کئے ہوئے تمام وعدے بھول گئے۔ نہ لوڈشیڈنگ کم ہوئی اور نہ ہی کسی اور شعبے میں بہتری آئی۔
یہ حکمران جب سستے بازاروں کا بھی دورہ کرتے ہیں تو جانا انہوں نے ہیلی کاپٹر پر ہوتا ہے کیونکہ اس پر عوام کے خون پسینے کا پیسہ خرچ ہو رہا ہوتا ہے مگر ہم لوگ اتنے بے حس ہو گئے ہیں جو بار بار انہی نکمے اور پیسے کے پجاریوں کو اپنا نمائندہ منتخب کر لیتے ہیں۔ اس تمام مسائل کی جڑ ہم خود ہیں کیونکہ کہتے ہیں نا جیسی عوام ویسے حکمران۔ ہم اپنے آپ کو پڑھی لکھی قوم تو کہتے ہیں مگر ہم میں یہ قابلیت ابھی موجود نہیں کہ ہم اپنا ایسا نمائندہ منتخب کر سکیں جو ایوانوں میں جا کر عوام کی فلاح اور ملک و قوم کی ترقی میں اہم کر دار ادا کر سکے۔دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ممالک کا مشاہدہ کیا جائے تو ان ملکوں میں عوام سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کرتی ہے مگر ہمارے ہاں جس کے جلسے میں بریانی کھا آئو, ووٹ بھی اسی کو دینا پڑ جاتا ہے اور ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے میں ووٹ کی فروخت تو سر عام ہو گئی ہے۔اسی معاشرے میں ہی ایسے لوگ موجود ہیں جو ووٹ فروخت کرتے ہیں۔ اب آپ اندازہ خود لگائیں کہ ایسی عوام جو ووٹ فروخت کرتی ہے وہ حکمرانوں سے اچھی امیدیں کیسے رکھ سکتی ہے کیونکہ جیسے ہم خود ہوں گے اور جیسا ہمارا رویہ ہو گا ویسے ہی ہمارے حکمران ہوں گے کیونکہ ہم ہی ان کو منتخب کر کے ایوانوں میں پہنچاتے ہیں۔
ہماری سادہ لوح عوام حقائق سے بے خبر انہی سیاستدانوں کو اپنا رہبر چنتی ہے جنہوں نے ایک بار نہیں بلکہ کئی بار انہیں دھوکہ دیا ہے۔ بحیثیت عوام ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکا جاتا ہے۔ جوں جوں الیکشن قریب آتے ہیں سیاستدانوں کو اپنے حلقے کی عوام یاد آتی ہے مگر عوام یہ بھول جاتی ہے کہ چند سال پہلے اسی سیاستدان نے ان سے کچھ وعدے بھی کیے تھے۔ لیکن ہماری اپنی سوچ نہ ہونے کی وجہ سے ہم پھر مار کھا جاتے ہیں اور انہی کو منتخب کر کے دوبارہ اقتدار کے ایوانوں میں بھیج دیتے ہیں جہاں وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سرگرداں ہو جاتے ہیں۔نہ ان کو اپنا حلقہ یاد رہتا ہے اور نہ ہی اپنے وعدے۔ اقتدار کے ایوانوں میں حقیقی تبدیلی کے لئے ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہو گی اور اگر سوچ نہ بدلی تو صرف شطرنج کے کھلاڑی تبدیل ہوں گے کپتان وہی رہے گا۔ ہمیں ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے بغیر یہ سیاستدان کسی کام کے نہیں، لیکن جب ایک بار ہم انہیں منتخب کرلیتے ہیں تو ہمارا کردار ختم ہو جاتا ہے اس لیے ہمیںآئندہ احتیاط کرنا ہو گی کہ ہم ان لوگوں کو ووٹ دیں۔
جو محب وطن اور صحیح تعمیر و ترقی کے خواہاں ہوں۔ گزشتہ حکومت نے ملک کو جن اندھیروں میں دھکیلا ہے اس سے وطن عزیز کو نکالنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمارے پاس اس وقت نہ گیس ہے نہ تیل۔ ہمارے ادارے تباہ ہو گئے ہیں’ کرپشن کا خوب چرچا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد ہو نہیں رہا بلکہ کئی دفعہ تو عدالت کی توہین بھی کی گئی جس کا خمیازہ ہمارے سابق وزیر اعظم نے بْھگتا بھی مگر سوچ بد ستور وہی۔ موروثی سیاست کے بخار سے نجات حاصل کرنا ہو گی کہیں ایسا نہ ہو کہ زرداری کے بعد بلاول یا نواز شریف کے بعد حمزہ ہم پر آ بیٹھیں۔ اقتدار کے ایوانوں تک عام آدمی کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی جاگیر دار یا وڈیرے یا صنعت کار کا۔ہم نے ایسے افراد کو آگے لانا ہے جن کا ظاہر و باطن صاف ہو۔ شطرنج کے کھیل میں ہم عوام نے سب کو مات دینی ہے کیونکہ ہم عوام کے ذریعے ہی یہ کھیل کھیلا جا تا ہے۔ تبدیلیوں کے اس سال میں وطن عزیز کے لیے مثبت تبدیلی کا جذبہ لیے ہمیں میدان میں کودنا ہو گا اور کوشش کرنی ہو گی ریاست کے چار ستونوں کی بنیاد جس کے ہاتھ میں ہے اس کی سوچ کو اپنے ووٹ کے ذریعے تبدیل کریں۔