2013کے الیکشن میں سیاستدانوں کے بلند و بانگ دعوؤں کے بعد عوام نے جس سیاسی جماعت پر اعتبار کیا اور جس کو اقتدار سونپا وہ مسلم لیگ ن ہے۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے پاکستان بھر میں جلسوں سے خطاب کیا اور انہوں نے پاکستان کی عوام کو ملک کو بیروزگاری، لوڈشیڈنگ، گیس،دہشت گردی، ڈرون حملوں سے نجات اور نہ جانے کون کون سے سنہری خوابوں کی تعبیر پوری کرنے کی خوشخبری سنائی تھی۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ وہ ان وعدوں پرکب اور کس طرح پورا اترتے ہیں مگر اس کے علاوہ انہوں نے ایک وعدہ یہ بھی کیا تھا کہ اگر انہیں اقتدار ملا تو وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقہ کو رہائی دلائیں گے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ ان کو نیک نیتی سے اپنے وعدے پورے کرنے کی توفیق دے (آمین)مگر ان سب وعدوں میں انہوں نے ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر ہمارے اوپر بیروں ممالک سے امپورٹ لوگ بھی مسلط کریں گے۔
پاکستان کی تقریباً انیس کروڑ کے لگ بھگ آبادی ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے اوپر باہر سے لوگ لا کر مسلط کیے جاتے ہیں۔ پہلے معین قریشی کو مسلط کیا گیا تھا اور اس کے بعد مشرف دور حکومت میں 20 اگست 2004 میں لندن سے امپورٹ کر کے لایا ہوا شخص (شوکت عزیز ) کو پاکستان کا وزیراعظم بنا دیا گیا۔ پھر اس سے بڑھ کر عزت کی بات کیا ہو گی کہ شوکت عزیز کو لانے کے لیے حکمران جماعت کے قائد یعنی چوہدری شجاعت کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔ عام لوگوں کے لیے یہ بے عزتی کی بات ہو مگر شاید سیاستدانوں کے لیے نہیں کیونکہ اس میںبھی کئی راز کی بات ہوتی ہیں۔ وہ یہ کہ ایک تو تاریخ میں نام لکھا گیا (خواہ وہ ڈیڑھ ماہ وزیراعظم رہے) دوسرے اب انہیں ساری زندگی وزیراعظم کی ریٹائرمنٹ والی مراعات ملتی رہیں گے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ اتنی بڑی سیاسی جماعتوں میں جو پاکستان سے الیکشن جیت کر آتی ہیں کیا ان میں کوئی ایک شخص بھی اس قابل نہیں ہوتا جس کو وزیراعظم یا گورنر بنایا جا سکے۔ پچھلے دور میں شوکت عزیز کو مسلط کرکے عوام کے وقار کی تذلیل کی گئی۔ عوام پاکستان کی اورحکمران بیرون ممالک سے لاکر مسلط کیے جائیں یہ کہاں کا انصاف ہے؟ بیشک ان کے پاس پاکستان کی قومیت ہو گی مگر اس قومیت کا خیال عام دنوں میں کیوں نہیں آیا؟ صرف اقتدار ملتے وقت یہ قومیت کیوں یا د آئی؟ قومیت چھوڑنا اور حاصل کرنا ایسے لوگوں کے لیے کوئی مشکل نہیں کیونکہ ان کو پاکستان لانے والے ہمارے حکمران ہیں اور قومیت دینے والے بھی یہی حکمران ہیں۔
Nawaz Sharif
اگر قومیت حاصل کرنے مسئلہ پیش آتا ہے توصرف ہم غریب عوام کو۔ ہمیں تو ایک قومی شناختی کارڈ بنوانے کے لیے کئی دن تک مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور جائز کام کے لیے ناجائز رقوم دینا پڑتی ہے۔ میاں نواز شریف کافی تگ و دو کے بعد ایک بار پھر اقتدار میں آئے تو پاکستانی عوام کو یقین تھا کہ انہوں نے تاریخ اور اپنے ساتھ ہو نے والے سلوک سے بہت کچھ سیکھا ہو گا لیکن وہ جس طریقے سے اہم عہدوں پر تقرریاں کر رہے ہیں اس سے یہ کہنے میں کوئی شبہ نہیں کہ یا تو انہوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا یا پھر ان کے مشیر ان سے مخلص نہیں۔ عوام پریشان ہے اور میاں صاحب سے پوچھتی ہے کہ ہم نے جس شخص کو ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے کا مینڈیٹ دیا ہے۔
وہ ہمارے اوپر بیرون ممالک سے لوگ لاکر کیوں مسلط کر رہا ہے۔ یہ پالیسی تو ن لیگ کی نہیں تھی پھر آپ کو کیا ضرورت پیش آئی جو آپ ہمیں امپورٹ گورنر کا تحفہ دے رہے ہیں۔ برطانیہ کے چودھری غلام سرور میں ایسی کونسی خوبی ہے جو اس کے سر پر پنجاب کی گورنری کا ہما بٹھایا جا رہا ہے۔ان کی پاکستان اور مسلم لیگ ن کیلئے ایسی کونسی خدمات ہیں جن کی بدولت ان کو یہ عہدہ دیا جا رہا ہے ؟ پنجاب کی آٹھ کروڑ آبادی میں کیا ن لیگ کو کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو پنجاب کا گورنر بننے کے اہل ہو؟ چوہدری سرور نے جمہوریت کی خاطر کیا قربانی دی یا صعوبتیں برداشت کیں ؟۔ سنا ہے کہ چودھری صاحب تو ان لوگوں میں سے ہیں جو ہر بھاری بھر کم سیاسی شخصیت کی برطانیہ آمد پر خدمت کو فرض سمجھتے ہیں۔ کل تک وہ پیپلز پارٹی کے جیالوں کے خدمت گار تھے آج ن لیگ کے متوالوں کے۔
یہ ہو سکتا ہے کہ جب میاں برادران برطانیہ جاتے ہیں تو چوہدری صاحب ان کی خوب آؤ بھگت کرتے ہوں جس کے عوض آج ان کو یہ معاوضہ دیا جارہا ہے۔ اگر یہ معاملہ ہے تو اس صلے میں نواز شریف ان کو اپنی جیب سے انعام اکرام دیں تو عوام کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ ذاتی خدمت کے اعزاز میں گورنر بنا دینے کے فیصلے کو قوم قبول نہیں کر ے گی۔ پاکستان میں قحط الرجال نہیں ہے کہ گورنر امپورٹ کرنا پڑے۔
پاکستان میں اس عہدے کے معیار پر پورا اترنے والی ایک سے بڑھ کر ایک شخصیت موجود ہے۔ میاں صاحبان ذرا اپنے اردگرد نظر گھمائے بہت سے ایسے کارکن موجود ہیں جنہوں نے آپ کی جلا وطنی کے دوران پارٹی کو منظم رکھا۔ جیلوں میں اسیری کا وقت گزارا، پارٹی کے خاطر مار کھائیں اور الیکشن مہم کے دوران اپنی جیب سے خرچہ کیا۔ کیا اب ایسے لوگوں کا حق نہیں کہ ان کو بھی اس اقتدار میں شامل کیا جائے۔ ذرا سوچئے اور ٹھنڈے دل سے سوچئے اور پھر فیصلہ کیجئے کہ گورنری کا تاج کس کے سر پر رکھا جائے؟ (بشکریہ پی ایل آئی)