میرا روزہ قبول کیوں نہیں ہوتا؟

Allha

Allha

ماہ صیام رب العالمین کی گرانقدر نعمتوں اور رحمتوں کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہے۔ ماہ صیام کا دوسرا عشرہ جاری ہے۔ رمضان کا ہر دن ہر گھنٹہ اور لمحہ تجلیات سے بھرپور ہوتا ہے۔ رمضان کی ہر رات کیف و سرور میں ڈوبی ہوئی ہر شام پیغام مغفرت اور صبح پیام رحمت خداوندی ہے۔ اسکا ایک ایک سیکنڈ نور کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہے۔ سلیمان فارسی روایت کرتے ہیں کہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خطبہ شعبان کے اخری روز دیا۔ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو تم پر ایک مہینہ خدائی برکات و نوازشات کے ساتھ انے والہ ہے۔ اللہ عزو جل نے مسلمانوں پر تیس روزے فرض کردئیے ہیں۔ جو مسلمان اللہ کی قربت چاہتا ہے تو ماہ صیام اسکے محبوبانہ خواب کی عملی تعبیر کو پر یقین بنا سکتا ہے۔ رمضان کے مہینے میں ایک مقدس رات شب القدر ایسی بابرکت ہو گی جو ہزاروں راتوں سے زیادہ مقدس ہے۔ جو شخص ماہ صیام میں کوئی عرض کریگا تو وہ ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں ستر مرتبہ فرض پورا کیا ہو۔

رمضان کی دیوقامت مقدسیت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ قران کریم اسی مہینے میں نازل ہوا تھا۔ قران پاک میں رمضان اور روزے کا زکر سورہ بقرہ میں یوں کیا گیا ہے۔ بقرہ میں روزے کی فضیلت اعتکاف تراویح اور عبادت خداوندی کو ایک ساتھ یکجا کیا گیا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے لوگو رمضان میں روزے اس طرح فرض ہوئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے والے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے۔ روزے کی غرض و غایت یہ کہ تمھارے اندر تقوی صبر و تحمل پیدا ہو۔ روزے کا حاصل و مقصود تقوی میں پنہاں ہے۔ تقوی اخرت کی کامیابی کی شرط ہے۔یہ حقیقی کامیابی کی خاطر ناگزیر ہے۔ تقوی کی دولت پانے کے لئے دیگر عبادات کے ساتھ روزے بھی فرض کئے گئے ہیں۔ روزہ کے منشور کو سمجھنے کی خاطر اللہ کے اس فرمان پر دانش و بنیش کا استعمال کرنا ہو گا قران پاک کو اسی مقدس مہینے میں نازل کیا گیا۔

جس میں مسلمانوں کے لئے واضح ہدایات اور حق و باطل کے مابین فرق الم نشرح کرنے کی خاطر کھلی نشانیاں موجود ہیں< اللہ کا قران فرقان میں ایک ارشاد ہے کہ قران کو شب قدر میں نازل کیا گیا تمھیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے یہ رات ہزاروں راتوں سے زیادہ افضل ہے۔ ہمیں ماہ صیام میں اپنے گناہ بخشوانے اللہ تعالی کی قربت حاصل کرنے اور رب کی برکات کو زیادہ سے زیادہ سمیٹنے کی کوشش کرنی چاہیے اور رمضان میں زیادہ سے زیادہ زکر خداوندی اور تلاوت قران مجید کو اہمیت دینی چاہیے۔ ماہ صیام میں جہاں صبر و تحمل اور کمزور یا غریب لوگوں کی غم خواری کی تلقین کی گئی ہے تو وہاں افطاری کی تاکید بھی حرمت رمضان کی خاطر لازم قرار دی گئی ہیسارے گناہوں کی معافی کی نوید دی گئی ہے تو دوسری طرف روزہ داروں کی مہمان نوازی کرنے والوں کو جہنم کی اگ سے بچانے کی خوش خبری بھی سنادی گئی ہے۔

Hazrat Mohammad (S.A.W.W)

Hazrat Mohammad (S.A.W.W)

خطبہ رمضان کے موقع پر اصحابہ کرام نے نبی آخرالزماں خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا کہ ہم میں سے کئی دوست ایسے ہیں جو روزہ کھلوانے کی سکت نہیں رکھتے۔ اپ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزو جل اس بندے کو بھی عظیم ثواب سے نوازیں گے جو کسی ایک روزہ۔ رمضان میں بندہ مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ روزہ داروں کی افطاری کا بندوبست کرنے والے مومن مسلمانوں کو ایک طرف دار کو ایک کھجور یا لسی کے گلاس سے روزے کی افطاری کو یقینی بنائے گا۔ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رمضان کا پہلا عشرہ اللہ کی رحمت درمیانی عرصہ مغفرت اور تیسرا حصہ جہنم سے نجات پر مشتعمل ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفقائے کرام اصحابہ کرام اور مسلمانوں کو رمضان کے متبرک مہینہ میں چار اعمالوں پر خصوصی توجہ دینے کی ہدایت کی۔

چار میں سے دو اللہ عزوجل کی رضا کے لئے لازم ہیں جبکہ بقیہ دو چیزیں ایسی ہیں جن سے تمھیں مفر نہیں۔پہلی دو عبادات جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا زریعہ ہیں میں کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت شامل ہے جبکہ دوسری دو چیزوں میں اللہ پاک سے جنت کی طلب کی دعائیں اور جہنم سے بچاو کے ازکار شامل ہیں۔ اپ نے اصحابہ پر واضح کیا جو شخص پانی کے گلاس سے کسی کا روزہ افطار کروانے کا شرف پالیتا ہے تو قادر مطلق بروز جزا اسکی تواضع پانی کے ایسے گلاس سے کریگا جسے پینے اور جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔ حضرت سعید خدری حضرت محمد صلعم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رمضان میں ساتوں اسمانوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ اخری روزے تک جاری رہتا ہے۔اگر کوئی مسلمان رات کو نماز نہیں پڑھتا تو بھی رحمن و رحیم اسکے ہر سجدے کے بدلے پندرہ سو نیکیاں لکھ دیتا ہے۔ جنت میں سرخ رنگ کے یاقوت کا محل تعمیر کیا جاتا ہے جسکے 60 ہزار دروازے ہیں۔ ہر دروازے پر سونے کا ایک محل ہوتا ہے جو یاقوت سے جڑ جاتا ہے۔ مسلمان جب پہلا روزہ رکھتا ہے تو اگلے رمضان المبارک کے پہلے روزے تک یعنی ایک سال تک 70 ہزار فرشتے اسکی مغفرت کی دعائیں مانگنے پر مامور کر دئیے جاتے ہیں۔

روزہ دار کی اس بڑی خوش قسمتی اور کیا ہو گی کہ اگر وہ دن یا رات کو ایک سجدہ کرتا ہے تو المالک و القدوس اسے ایک سجدے کی بدولت اسے ایک تناور شجرسایہ دار درخت میں بدل دیتاہے جسکے سائے میں سوار پانچ سو سال تک سفر کر سکتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ مبارک سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ماہ مبارک تجلیات ربانی کے نزول اور پروردگار عالم کے دربار میں مغفرت کا موسم بہار ہے جس میں ستار و غفار کی رحمتوں نوازشوں اور برکتوں کا ابر کرم خوب برستا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہمیں سعادت مندی سے رب کے قرب اور خوشنودی کے حصول کے لئے تعلیمات رسول فرامین خدا اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں سخت محنت کرنی چاہیے تاکہ من کی مرادیں پوری ہوں اور سارے گناہوں کی معافی تلافی مل سکے مگر کیا ایک ایسے سماج میں جہاں صیام کی امد پر ہر طرف فرامین خدا اسوہ حسنہ اور قرانی احکامات کی سر عام دھجیاں اڑائی جارہی ہوں تو کیا ہم گنہاگاروں کے روزے عرش عظیم پر شرف قبولیت کا اعزاز حاصل کرپائیں گے۔

Ramadan Bazaars

Ramadan Bazaars

اسکا جواب تو علمائے کرام دے سکتے ہیں تاہم کم از کم میں یہ کہنے میں عار نہیں سمجھتا کہ میرا روزہ میری عبادات کی فراوانی کے باوجود قبولیت سے تہی داماں رہے گا۔میرے ارد گرد ماہ رمضان میں مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کا خون بہارہا ہے۔ ائے روز بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں درجنوں معصوم لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں۔ جہاں روزہ دار تاجر زخیرہ اندوزی اور مہنگائی کے نام پر غریب لوگوں کا خون چوس رہے ہوں جہاں رمضان بازاروں کے نام پر مخلوق خدا کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہو جہاں سرکاری دفاتر میں عیدی کے نام پر بیانگ دہل کرپشن کا ریٹ دوگنا وصول کیا جاتا ہو۔ جھوٹ کذب بیانی فسوں کاری افراتفری اور مذہبی انتشار کا دور دورہ ہو جہاں حکمران طبقات افطاریوں کے نام پر سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے ہوں جہاں ارباب اختیار قومی خزانے کے اربوں روپے من پسند مدارس کو سیاسی مفادات کی اڑ میں شیر مادر سمجھ کر تقسیم کر دیتے ہوں۔

جہاںقتل و غارت چوریوں ڈکیٹیوں کا زور ہو جہاں سوویت یونین کا شیرازہ بکھیر کر افغانستان کو ازاد کروانے والے طالبان اور مجاہدین کو فخر اسلام کا لقب دیا گیا مگر اج انہی مجاہدین کو دہشت گرد کہہ کر راندہ درگاہ بنا دیا جائے جہاں ملکی فورسز اللہ کے اس قول یہود و نصاری کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے کو طاق نسیاں کی زینت بنا کر دشمنان اسلام کے ساتھ فرنٹ لائن پارٹنر بن جاتے ہوں۔ جہاں حکمران قبیلے وزرا جھوٹ در جھوٹ بولنے کے مریض بن چکے ہوں جہاں روشنیوں کا شہر کراچی ٹارگٹ کلرز کی وحشت سے لال اندھیروں کا شاہکار بن جائے۔ جہاں عوامی نمائندگان ایم پی اے اور ایم این ایز تھانوں میں جھوٹی ایف ائی ار درج کروانے کے مریض بن جائیں جہاں مساجد کے امام دوسرے مسالک سے تعلق رکھنے والے روزہ دار مسلمانوں پر کفر کا فتوی عائد کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ جہاں افطار کے نام پر دولت کا بے تحاشا استعمال کیا جاتا ہو افطار پارٹیاں سیاسی میٹنگوں اور سیاسی سازشوں کا گڑھ بن جائیں جہاں دو کروڑ سے زائد بچے عیدی کے کپڑوں سے محروم ہوں جہاں مسکین غریب کو افطار کی خاطر پانی کا سادہ گلاس پلانے سے گریز کیا جاتا ہو۔

جہاں ہر طرف روزہ دار نوجوان سارہ دن موبائل پر غیر اسلامی پیغامات بھیجنے میں دن غرق کردیتے ہوں جہاں گریجوئیٹ اور اعلی تعلیم یافتہ بے روزگاری کے جہنم میں گل سڑ رہے ہوں اور پھر وہ باغی بن کر جرائم پیشہ گروہوں میں داخل ہوکر اپنا روشن مستقبل تاریک کر رہے ہوں جہاں ہر طرف رمضان کے پاک دنوں میں فحاشی پر مبنی انگریزی اور بھارتی فلموں کی دن میں نمائش جاری ہو جہاں مسافروں اور بیماروں کے نام پر ہوٹل کھلے عام تقدس صیام مسخ کرتے ہوں۔

قانون کے رکھوالے ٹرانسپورٹ کو روک کر بے شرمی سے عیدی وصول کرتے ہوں جہاں ہر سو لوٹ مار کا بازار گرم ہو دیانت داری جہاد صداقت شجاعت اور انصاف قصہ پارینہ بن جائے کمزوروں کا استحصال جاری ہو کیا ایسی خرابات کی موجودگی میں ہمارے روزے اور دعائیں عرش عظیم تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکتی ہیں اگر ہم پوری دیانتداری فرض شناسی اور اسلامی فرامین کی روشنی میں اپنا اپنا احتساب کریں تو شائد لاکھوں کا ضمیر میرے موقف کی تائید کردے۔ راسخ العقیدہ مسلمان اور کلمہ گو انسان اور وحدانیت خدا کو دل و جان سے تسلیم کرنے والہ راقم الحروف یہی نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہے کہ شائد میرا روزہ قبول نہیں ہوسکتا کیونکہ ننگے بدن کو ریشم کے سات پر دوں میں بھی چھپا لیا جائے تو وہ ننگا ہی رہتا ہے۔

تحریر : روف عامر