دنیا میں سینکڑوں تنظیمیں انسانی حقوق کے تحفظ کی دعویدار ہیں۔ قدرتی آفات اور بیماروں کی روک تھام کے لئے بہت سے احتیاطی طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ پولیو، خسرہ اور دیگر بیماریوں سے بچائو کی ویکسین گھر گھر فراہم کی جاتی ہے لیکن نشے کی لت میں مبتلا سسکتی بلکتی انسانیت نجانے کیوں ہمیں نظر نہیں آتی ہماری حکومتیں لوگوں کو پولیو سے تو بچانا چاہتی ہیں لیکن منشیات کی آسان اور سستے داموں فراہمی کی روک تھام نہیں کرتیں۔ حکومتیں تو اپنی جگہ خاموش ہیں لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ اسلامی اور انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والی تنظمیں بھی معاشرے کو منشیات کی لعنت سے بچانے کے لئے کسی طرح کی آگاہی فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔
آج حالت یہ ہے کہ پاکستان میں منشیات کے استعمال کا رجحان بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔خاص طور پر نوجوان اور کم عمر بچوں، بچیوں کا نشے کی لت میں مبتلا ہونا تشویشناک حد تک بڑھ چکا۔ منشیات کے نقصانات کا علم ہونے کے باوجود حکمرانوں کا ان کی روک تھام کے لئے مناسب اقدامات نہ اُٹھانا انتہائی افسوس ناک بات ہے۔ سگریٹ کے ہر پیکٹ پر یہ نصیحت درج ہوتی ہے کہ خبر دار تمباکو نوشی مضر صحت ہے لیکن سگریٹ سازی کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہے۔ اگر سگریٹ مضر صحت ہے تو پھر ریاست کاقانون شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے والے زہر کو تحفظ کیوں فراہم کرتا ہے۔
آج دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی ایٹم سگریٹ ہے۔ شہروں میں نوجوان نسل شیشہ کو فیشن کے طور پر اپنا چکی ہے۔ منشیات انسانی زندگی کے لئے انتہائی خطرناک ہے پھر بھی دنیا بھر میںہر رنگ، نسل، مذہب اور زبان سے تعلق رکھنے والے انسان دل کھول کر منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔دنیا کے تما م حکمران اس حقیقت سے مکمل واقفیت رکھتے ہیں کہ منشیات کی پیداوار کہاں کہاں ہوتی ہے۔ لیکن کبھی کسی نے منشیات کی پیداوار کو روکنے کے لئے اتنی سنجیدگی سے کام نہیں کیا جتناکہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کتنی بے دردی سے ایک انسان دوسرے انسان کو چند روپوں کی خاطر زہر دیتا ہے۔
یہ ہے ترقی یافتہ دنیا کی اصل شکل انسان ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے چاند ستاروں تک پہنچ گیا ،زمین کھود کر گیس، تیل، کوئلے، سونے، تانبے سمیت نجانے کون کون سے خزانے اپنے نام کرچکا ،تیز ترین ذرائع ابلاغ کی ایجاد کے بعد پوری دنیا کو ایک ویلج کی شکل دینے میں کامیاب ہونے کے ساتھ ساتھ اور بہت سی کامیابیاں سمیٹ چکا ہے لیکن منشیات کی روک تھام کرنے میں آج بھی بری طرح ناکام ہے۔ آج یہ حال ہے کہ بھرے شہروں میں سرعام ابن آدم منشیات جن میں ہیروئن سر فہرست ہے، چرس ،شراب، گٹکا اور دیگر منشیات کا استعمال کرتا ہے لیکن اسے محبت اور پیار سے اس لعنت سے دور کرنے کی بجائے ہم حکارت اور نفرت کی نظر سے دیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
Pakistan
یعنی منشیات سے نفرت کی بجائے ہم منشیات کے عادی افراد سے نفرت کرتے ہیں جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم منشیات سے اتنی نفرت کریں کہ جب تک دنیا سے اُس کا خاتمہ نہ ہوجائے چین سے نہ بیٹھیں۔ روسی ادارے آرٹی کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں ہیروئن کا نشہ خوراک سے سستا ہے۔ پاکستان میںسالانہ ایک ارب ڈالر مالیت کی ہیروئن اور دوسری منشیات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس صنعت کا انحصار تباہ حال افغانستان کی نشہ آور فصل سے ہے یہ انکشاف روسی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ہیروئن خوراک سے سستی اور باآسانی دستیاب ہے۔پاکستان میں چالیس سے پچاس لاکھ لوگ منشیات کے عادی ہیں لیکن ان کو اس لعنت سے بچانے کے لئے میڈیکل کلینک 80 سے بھی کم ہیں۔
رپورٹ کے مطابق کراچی میں ہیروئن کے عادی افراد اپنی عادت کو چھپانے کی پروا نہیں کرتے۔ کراچی کے ایک مقامی نوجوان عبداللہ نے 2 ہفتے اپنے والد کو تلاش کیا جو ہیروئن کاعادی تھا بلاآخر کراچی کے سب سے بڑے مردہ خانے سے اُس کے والد کی نعش مل گئی۔ منشیات کے عادی افراد کی مدد منشیات کی فراہمی کو مشکل بناکر کی جاسکتی ہے لیکن یہ لعنت کراچی، لاہور سمیت تقریبا پاکستان بھر میں عام دستیاب ہے۔ روسی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہیروئن کے اہم جز و افیون کاسب بڑا پیدا کرنے والا ملک افغانستان ہے دنیا بھر میں 90 فیصد منشیات اسی ملک سے فراہم کی جاتی ہے۔ اور تقریبا 40 فیصد منشیات پاکستان کے راستے اسمگل ہوتی ہے۔
عالمی ادارے کی 2013ء کی ورلڈ ڈر گزر رپورٹ کے مطابق پاکستان اور یوکرائن میں منشیات کے عادی افراد میں سب سے زیادہ ایچ آئی وی کی موجودگی 22 فیصد تک پائی جاتی ہے جبکہ بھنگ پینے والوں کی تعداد میں پاکستانیوں میں 3.6فیصد کے لحاظ سے اضافہ ہور ہاہے۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیاہے کہ دنیا بھر میں 2011ء میں منشیات سے 2 لاکھ 11 ہزار افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ اقوام متحدہ کی ڈرگز اینڈ کرائم کے مطابق ہیروئن اور افیون کی عالمی سطح پر تجارت 68ارب ڈالر کی ہے۔ جس میں صرف ہیروئن کی 61ارب ڈالر ہے۔ سالانہ ایک کروڑ 60 لاکھ افراد افیون سے وابستہ منشیات استعمال کرتے ہیں۔
Medical Stores Medicines
دنیا میں اس وقت دوکروڑ دس لاکھ افراد ہیروئن کے عادی ہیں۔ روسی ادارے نے اپنی رپورٹ میں شراب گٹکے اور مضر صحت تمباکو کی پیداوار، اسمگل اور استعمال کے بارے میں کوئی بات نہیں کی جبکہ پاکستان میں ہیروئن سے بھی زیادہ شراب، چرس اور گٹکا استعمال ہوتا ہے جو زیادہ تر بھارت سے اسمگل ہوکر پاکستان پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی نشہ آور ادویات میڈیکل سٹوروں سے باآسانی مل جاتی ہیں،نشہ آور انجکشن کا رجحان بھی بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ نشہ تیزی سے پھیلتی معاشرتی بیماری ہے۔ معاشی بد حالی، بے روزگاری، مہنگائی کے ساتھ ساتھ محبت میں ناکامی سے پیدا ہونے والی مایوسی لوگوں کو منشیات کا عادی بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
غریب لوگ اپنی مشکلات سے گھبرا کر خود کو نشے کے حوالے کردیتے ہیں جبکہ امیر لوگ شوقیہ اور فیشن کے طور پر نشہ یعنی منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔ زندگی میں پیش آنے والی مشکلات اور آزمائشوں کی وجہ سے جب مایوسی حد سے بڑھتی ہے تو انسان کو کسی سہارے کی ضرورت پڑتی ہے لیکن آج کے تیزترین دور میں کسی کے پاس کسی کو سہارا دینے کے لئے وقت نہیں ہے۔ جب انسان اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرتا ہے اور کسی سے دل کی بات نہیں کہہ پاتا اُس وقت سب سے قریب نشہ نظر آتا ہے اور جب یہ لعنت باآسانی دستیاب ہوتو پھر انسان کا بچنا خاصا مشکل ہوجاتا ہے۔ جب ہمارے پیارے نشے کی لعنت میں غرق ہوجاتے ہیں۔
تو ہم اُن کی نشہ کرنے کی عادت کی بجائے اُن سے نفرت کرتے ہیں جو جلتی پر تیل والی بات ہے۔ روسی ادارے کی رپورٹ حقیقت کے بالکل قریب ہے۔ پاکستان میں منشیات فروشی عام ہے اس بات سے تقریبا ہر پاکستانی واقف ہے لیکن ایک شریف شہری ان موت کے سوداگروں کے ہاتھ کاٹنے کی طاقت نہیں رکھتا کیونکہ یہ لوگ انتہائی طاقتور اور بااثر ہیں اس لئے ملک کو منشیات سے پاک کرنا حکومت کا کام ہے۔ حکومت ملک کو منشیات سے پاک اور مستقبل کے معماروں کو نشے کی لت سے بچانے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔