کروڑوں کی رقم غیر معمولی ہوتی ہے بالک…! باقی ماندہ زندگی عیش عشرت سے گزرے گی اپنا نہیں تو اپنی فیملی کا ہی کچھ خیال کر حب الوطنی میں کیا رکھا ہے؟یہی دستور رہا ہے زمانے کاسب ہی بکتے ہیں بس قیمتوں کا تعیُن جُدا جُدا ہے۔ سیاست، ریاست، ایکٹر، کرکٹر، قلم، فلم، اعتبار، انصاف اور قانون بکتا ہے جزبہ بکتا ہے جوش اور جنون بکتا ہے، بوڑھا بکتا ہے جوان بکتا ہے۔ یہ دنیا بکائو منڈی ہے یہاں بولیاں لگتی ہیں ہم سے اُونچے قد والے ہمارے خریدار ہوتے ہیں اورتُو ابھی بَونا ہے تو ایک چھوٹے سے ایکوریم کی آنکھوں کو بھاجانے والی ننھی سی گولڈن مچھلی ہے پیارے اپنی حقیقت کو جان اور سمندر کے مگرمچھوں سے ویر نہ لے ” ضمیر کی آواز 24 سالہ خوبرو نوجوان کا مستقل تعاقب کر رہی تھی۔
اِس بار نوجوان نے خود کو سنبھالا اور پلٹ کر لہجے کی بھر پور پختگی کے ساتھ ضمیر سے مخاطب ہوتا ہے”میں نے مانا کہ میں تنہا نہیں فیملی کی ذمہ داریاں بھی ہیں مگر اے ضمیر ِ بے وفا بے شک (”ا”سے لیکر ”ے”تک) یہاںسب کچھ بکتا ہے مگر سچے، پکے اور کامل مومن مسلمان کا ایمان نہ کبھی بکا ہے اور نہ ہی کبھی بکے گا”۔ نوجوان جزباتی ہو گیا تھا اُس کے ذہن کے پروجیکٹر پر وطنِ عزیز پاکستان کیلئے دی گئی قربانیوں، خونی کفن میں سمٹے لاشے، مائوں بہنوں کی چھنتی رِدائیں یہ سب اور بہت کچھ ایک پرانی بلیک اینڈ وائٹ فلم کی مانند سب ہی صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اُس سیّد زادے کے خون اور خمیر میں بیوفائی کی آمیزش نہیں تھی، اُسے گُھٹی میں ایمانداری کے تمام سفوف اور کشتہ جات ایک ساتھ کھلائے گئے تھے۔
اُس نے وہی کیا جو اُسے کرنا چاہے تھا اُس نے ضمیر کی ایک نہ سُنی اور ہیرے، موتیوں سے لدی تشتریوں کو ٹھوکر مارکے کیریئر کی پروا کیے بنا 8 نومبر 2010 کو اپنے ملک اور ٹیم کی خاطر قربانی دیتے ہوئے سب کچھ چھوڑ چھاڑکے امارات کی پرواز ”زیرو ٹو نائن”کے ذ ریعے دبئی سے انگلینڈ چلا گیا۔ جی ہاں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابقہ وکٹ کیپر و بلے باز ذولقر نین حیدر کو دبئی میں ون ڈے سیریز کے دروان نہ صرف چوتھے اور پانچوے میچ میں ٹیم کوشکست سے ہمکنار کروانے پر زور دیا جانے لگا بلکہ انڈر ولڈ قسم کی دھمکیوں کا سامنا بھی تھا۔ ٹیم منیجر انتخاب عالم کے مطابق ذولقرنین حید کمرہ نمبر 469 میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ذولقرنین حیدر پر بکیوں کا دبائو اِس قدر تھا کہ وہ حواس باختہ سا ہو کر رہ گیا (آخر 24 سالہ عمر ہوتی ہی کتنی ہے) اِس نوجوان کو خود اپنے پر بھی اعتبار نہ رہا یہاں تک کہ آئینہ بھی وہی بھیانک شکلیں دکھائی دینے لگا تھا۔
Pakistan Cricket Team
بقول ذولقرنین حیدر کہ” مجھے دھمکیاں دبئی میں مِلی اِس لیے بات وہاں باہر نہیں نکالی، برطانیہ پہنچ کر یہ راز افشاں کیا۔ مجھے ایک شخص نے کھل کر فون پر میچ ہارنے کا کہا اور پھر دوسرے میچ کے موقع پر کھانا کھانے کے بعد مذ کورہ شخص ہوٹل میں مِلا، پہلے لالچ دیا اور بعد میں دھمکی دی کہ اگر میں نے تعاون نہ کیا تو میں ٹیم میں تو کیا اِس دنیا میں ہی نہیں رہونگا۔ اُس بکیز کی بے باک باتوں سے واضع تھا مذکورہ شخص اتنی رسائی کا حامل ہو سکتا ہے اور جو دھمکی دی اِسے عملی جامہ پہنانا اِس کے ایک اشارے کا کام ہے لہذا میں نے جتنا جلد ہو سکتا تھا اپنے اور اپنی ٹیم کی خاطر خود کو منظرِ عام سے ہٹانا مناسب جانا۔ کیونکہ میں ذاتی مفاد نہیں ٹیم اور ملک کی خاطر کھیل رہا تھا۔
میں نے انگلینڈ پہنچتے ہی smsکے ذریعے جیو ٹیوی چینل کے نمائندے سہیل عمران کو بکیز کی دھمکیوں کے بارے تمام معلومات فراہم کی اور یہ انکشاف بھی کیا کہ میرے اہل خانہ کی جان کو خطرہ ہے ”۔ ہمارے ہیروز کی سکیورٹی کا یہ عالم ہے تو زیروز تو ہوتے ہی زیرو ہیں۔ ذولقر نین حیدرکے یہ الفاظ بھی تھے کہ” بلاشبہ موت کا ایک دِن مقرر ہے اور وہ کہی بھی آسکتی ہے مگر انسانی حقوق کی صورتحال دبئی کے مقابلے میں برطانیہ میں بہتر ہے۔ تھوڑا سا مجنون اور دیوانہ سا لگتا ہے بقول خود…کہ انسانی حقوق کی صورتحال برطانیہ میں بہتر ہے تو کیا ضرورت تھی پاکستان واپس آ کر دکھی، مجبور، نابینا، مشکل میں پھنسے کرکٹرز اور سپورٹس کا شوق پالنے والوں کے حق میں فائونڈیشن (ادارہ) بنانے کی۔
PML-N
بڑا ہی بھولا بادشاہ ہے تو جو مشکل میں پھنسے کرکٹرز کو بھنور سے نکالنے کی چاہ لیے واپس چلا آیا(ضمیر مختلف بہانوں کو جنم دے رہا تھا)…مگر ثابت قدم نوجوانوں کے سامنے ضمیرکے حیلے بہانے ریت کی دیوارسے بڑھ کر اور کچھ نہیں یوں لگتا ہے جیسے ذولقرنین حیدراپنے جیسی مشکلات میں گھرے کِسی نوجوان کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہتا۔ زیڈ ایچ ایف کا یہ مشن بھی قابلِ تعریف ہے کہ غیر ملکی کھلاڑیوں کو پاکستان میں انٹر نیشنل کرکٹ کھیلنے پر آمادہ کیا جائے گا۔جزبہ حب الوطنی سے سرشار بیشمار نوجوانوں نے زیڈ ایچ ایف کی حمایت کا با قائدہ اعلان کر دیا ہے جِن میں اُبھرتے ہوئے کرکٹرز کے علاوہ سیاسی، صحافتی وسماجی حلقوں میں امبرین خان، خالد شیخ، اسلم خٹک PMLN جنرل سیکر ٹری ڈسٹرکٹ سینٹر کراچی، شائد خان، راشد صدیقی، عمران شاہ، عبد الرزاق PMLN یونان گریس اینڈ انٹرنل ڈائریکٹر وائس آف یوتھ۔
رائو فہد وائس پریزیڈنٹ وائس آف یوتھ(بحرین)، رائو جواد،بخت خان، زبیر احمد صدیقی بلائنڈٹیم کرکٹ پلیئر اینڈ جنرل سیکرٹری کراچی ایسو سی ایشن فار دی ویلفیئر ،شیزاشیخ اِنٹر نیشنل ڈائریکٹر وائس آف یوتھ اور نام یومِ تکبیر کے کالق یومِ تکبیر کے ہیرو، وائس آف یوتھ کے چیئر مین جناب مجتبیٰ رفیق نے بھی ذولقر نین حیدر فائونڈیشن کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا ہے۔ سماجی راہنما مجتبیٰ رفیق کی حمایت کے بعد نوجوان جو ق در جوق زیڈ ایچ ایف کا حصہ بننے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ گزشتہ دِنوں 22 جولائی 2013 کو کراچی پریس کلب میں زیڈ ایچ ایف کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس میں بھی وائس آف یوتھ کے چیئر مین مجتبیٰ رفیق کی موجودگی اِس بات کی نشاندہی ہے کہ وہ کِسی موڑ پر ذولقرنین حیدر فائونڈیشن کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔
اُمید ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے عبوری سربراہ نجم سیٹھی اور کرکٹ بورڈ سے منسلک تمام عہدیداران بھی زیڈ ایچ ایف کے ساتھ نہ صرف بھر پور تعاون کریں گے بلکہ زیڈ ایج ایف کے زیرِ سا یہ نیو ٹیلنٹ اور بلائنڈ کرکٹرز کی حوصلہ افزائی کیلئے نمائشی میچوں کا انعقاد بھی کروائیں گے۔ وزیرِاعظم میاں نواز شریف صاحب کا بھی حق بنتا ہے کہ وہ زیڈ ایچ ایف کے اِس مثبت اقدام کو سہراتے ہوئے نوجوان پاکستان سابقہ وکٹ کیپر ذولقرنین حیدر کی فائونڈیشن کے ساتھ خصوصی تعاون فرمائیں تاکہ منجدھار میں پھنسی پاکستانی سپورٹس کی کشتی کو طوفانی لہروں سے بچاتے ہوئے سہی سلامت ساحل تک پہنچایا جا سکے۔