تیونس (جیوڈیسک) تیونس میں پارلیمنٹ کے باہر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کی جانب سے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔ تیونس میں دو روز قبل اپوزیشن رہ نما محمد البراہیمی کے قتل کے بعد ملک میں حالات مزید کشیدہ ہوگئے ہیں اور اپوزیشن کے حامیوں نے ملک گیر احتجاج شروع کر دیا ہے۔ ادھر تیونس کی پارلیمنٹ کے باہر اسلام پسند حکمراں جماعت “النہضہ” اور اپوزیشن کے حامیوں کے درمیان تصادم ہوا تاہم پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کرکے مظاہرین کو منتشر کر دیا۔ برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق تیونس میں۔
مسلح حملہ آوروں کی فائرنگ سے مارے جانے والے اپوزیشن رہ نما محمد البراہیمی کے نماز جنازہ کے جلوس نے مشتعل مظاہرے کی شکل اختیار کرلی۔ البراہیمی کی تدفین کے بعد ہزاروں افراد نے پارلیمنٹ کے گھیرائو کی کوشش کی۔ اس موقع پر”النہضہ” کے حامیوں کی بڑی تعداد بھی پارلیمنٹ کے باہر موجود تھی۔
چنانچہ حکومت کے حامیوں اورمخالفین کے درمیان آنکھ مچولی شروع ہوئی تھی کہ پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس کی شیلنگ سے منتشر کر دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تیونس کے شہر”باردو” میں حالات زیادہ کشیدہ بتائے جاتے ہیں جہاں حکومت مخالفین نے دھرنا دے رکھا ہے۔ پولیس نے دھرنا دیے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج بھی کیا ہے۔
دریں اثنا حکمراں جماعت النہضہ کے ایک مرکزی رہ نما محمد الفوراتی نے اپنی پارٹی کے حامیوں اور انقلابی کارکنوں سے کہا ہے کہ وہ حکومت اور آئین ساز کونسل بچانے اور ملک میں کوئی بھی ماورائے آئین اقدام کی راہ روکنے کے لیے مظاہرے کریں۔ انہوں نے پارلیمنٹ کو آئینی سازی کی ‘علامت’ قرار دیا اور کہا ہے ادارے کو بچانے کے لیے پوری قوم اور ادارے متحد ہو جائیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائیٹ فیس بک کے اپنے صفحے پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں مسٹر الفوراتی کا کہنا تھا کہ ایک سازش کے تحت ملک میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔
قوم ایسی کسی بھی سازش کو مل کر ناکام بنا دیں۔ ادھر تیونس وزارت داخلہ نے عوام کا غم وغصہ ٹھنڈا کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ عوام مظاہروں کے دوران امن کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ وزارت داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپوزیشن رہ نما محمد البراہیمی کے اندھے قتل کے بعد پوری قوم سوگوار ہے۔ حکومت عوام کو قاتلوں کیخلاف احتجاج کا پورا حق دیتی ہے لیکن ساتھ ہی عوام سے اپیل ہے کہ وہ آئین اورقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے احتجاج کریں مگر ریاستی اداروں اور عوامی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔