لڑکیوں کے لئے سکوٹی

Punjab Government

Punjab Government

پنجاب حکومت کی جانب سے طالبات کے لئے سکوٹی دینے کا اعلان کیا گیا ہے تاکہ یہ پبلک ٹرانسپورٹ میں دھکے کھانے کی بجائے سہولت کے ساتھ اپنی یونیورسٹی جا سکیں۔ اس اعلان کے بعد جہاں لاہور کی طالبات بے چینی سے سکوٹی کا انتظار کررہی ہیں وہیں منچلے بھی انہیں سڑکوں پر دیکھنے کو بے تاب ہیں۔ اس سے پہلے گزشتہ دور حکومت میں پنجاب حکومت کی جانب سے نوجوانوں میں لیپ ٹاپ تقسیم کئے گئے تھے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اُن لیپ ٹاپ کے کیا نتائج سامنے آئے ہیں۔

کیا اس سے ہم نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ آئی ٹی کی دنیا میں دوسرے یا تیسرے نمبر پر آگئے ہیں یا کہ ہمارے نوجونواں نے اس سہولت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کوئی ایسی ایجادات کی ہوں کہ جس سے علمی سطح پر ہمارے ملک کا نام روشن ہوا ہو؟ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، اگر کچھ ہوا ہے تو وہ بس اتنا کہ اب تقریباًہر نوجوان فیس بک اور سوشل میڈیا پر مصروف دیکھائی دے رہا ہے۔ ہر فرد اسے اپنی سوچ کے مطابق استعمال کررہا ہے۔ لاکھوں لیپ ٹاپ تقسیم کئے گئے جن کی قیمت اربوں میں بنتی ہے۔

اور تمام لیپ ٹاپس غیر ملکی کمپنی سے خریدے گئے کیونکہ پاکستان میں لیپ ٹاپ بنانے والی کوئی فیکٹری موجود نہیں۔ اگر ان لیپ ٹاپس کی بجائے انہی پیسوں سے لیپ ٹاپ بنانے کی فیکٹری لگا دی جاتی تو کئی فائدے حاصل کئے جا سکتے تھے۔ایک تو ہماری معیشت کچھ بہتر ہوجاتی دوسرا بے روزگاری میں کسی حد تک کمی واقع ہوجاتی۔ یہی نوجوان جو ڈگری اور لیپ ٹاپ لے کر بے روزگار بیٹھے ہیں یہ برسر روزگار ہوتے۔ پھر اپنے ہی ملک میں تیار کئے گئے لیپ ٹاپس ان نوجوانوں میں تقسیم بھی کئے جا سکتے تھے۔

اور اپنی ضرورت پوری ہونے کے بعد دوسرے ممالک کو بیچے بھی جا سکتے تھے جس سے ہمارا خالی خزانہ خالی نہ رہتا۔ اسی طرح جہاں تک لڑکیوں کو سکوٹی دینے کی بات ہے تو اس سے لڑکیوں کو سہولت ملے یا نہ ملے البتہ اُن کی مسائل میں اضافہ ضرور ہو گا کیونکہ ایک تو ہمارا معاشرہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ایک نوجوان لڑکی اکیلے سکوٹی پر یونیورسٹی جایا کرے دوسری بات یہ کہ ہماری لڑکیاں بھی اس قدر پر عتماد(بولڈ) نہیں ہیں کہ اتنے رش اور اس ماحول میں سکوٹی چلا سکیں۔

Students

Students

لاہور کے نوجوان جو بے تابی سے ان سکوٹیوں کو سڑکوں پر دیکھنے کا بے تابی سے انتظار کررہے ہیں وہ ان لڑکیوں کے لئے شدید مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ایک سکوٹی کے اردگرد بیس ون ولنگ کرنے والے موٹر سائیکل نظر آئیں گے، ایسے میں اُس لڑکی کی کیا کیفیت ہوگی اس کا اندازہ آپ بہتر لگا سکتے ہیں۔ اگر لاہور کی طالبات کو کالج یا یونیورسٹی جانے کے لئے ٹرانسپورٹ مسائل کا سامنا ہے تو حکومت کو چاہئیے تھا کہ کہ خواتین کے لئے الگ ٹرانسپورٹ شروع کردیں۔

جس سے نہ صرف طالبات بلکہ ڈیوٹی پر جانے والی خواتین کو بھی فائدہ ہوگا اور وہ بھی باآسانی اور با عزت طریقے سے آجا سکیں گی۔پھر بھی اگر حکومت وقت کی خواہش لاہور کی سڑکوں پر سکوٹیاں دیکھنا ہی ہے تو انہیں چاہیئے کہ کسی دوسرے ملک سے سکوٹی خریدنے کی بجائے اپنے ہی ملک میں کارخانہ لگایا جائے۔ اگر ہم ایٹم بم بنا سکتے ہیں تو پھر لیپ ٹاپ بنانا کون سا بڑا مسلٔہ ہے اگر جنگی جہاز اور میزائل بنا سکتے ہیں تو پھر موٹر سائیکل یا سکوٹی بنانا کون سا مشکل کام ہے۔

ملک میںاس طرح کے کارخانے لگانے سے ملک کی معیشت بھی ترقی کرے گی اور روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ لیکن دراصل ہمارے ملک کے سرمایہ دار حکمرانوں نے عوام کو سہولت دینے کے لئے یا اُن کے مسائل حل کرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنے خزانے بھرنے کے لئے اقدامات کرنے ہوتے ہیں۔ اس طرح کے منصوبوں سے بے تحاشہ پیسہ ان کے اکاؤنٹس میں جمع ہوجاتا ہے۔
یہ سکوٹی چلانا ہمارا کلچر نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں اس کو اپنانے کی کوئی خاص ضرورت ہے۔ اس طرح کے پروجیکٹس اُس وقت معنی خیز ثابت ہوتے ہیں جب ملک میں عدل کا نظام ہو۔جب معاشرے میں بھوک خوف نہ ہو، ہر طرف امن ہو اور عوام باشعور ہو۔ اس وقت ہمارے ملک میں سرمایہ داریت عروج پر ہے، ہر طرف بھوک، خوف، بدامنی اور بے روزگاری ہے۔

ہمارے حکمران ان بنیادی مسائل پر توجہ دینے کی بجائے لیپ ٹاپ اور سکوٹیوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ ایک انسان بھوک سے مر رہا ہو اورآپ اُسے نیا موبائل فون گفٹ کریں، اس وقت اس شخص کی کیا کیفیت ہوگی اس کا اندازہ آپ بہتر طور پر کرسکتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ مذاق ہمارے حکمران عوام کے ساتھ کررہے ہیں۔

Shzad Yusufzai

Shzad Yusufzai

تحریر : شھزاد یوسف زئی