اقتدار کے لالچ میں پاکستانیوں کو ملک کے وسیع تر مفاد میں یونہی بیوقوف بنایا جاتا رہے گاجس طرح شروع سے لیکر اب تک بنا جارہا ہے کل کے بھائی آج کے مخالف بن چکے ہیں اور جو کل ایک دوسرے سے دست و گریبان تھے انہوں نے ملک کے وسیع تر مفاد میں ایک دوسرے کو گلے لگا کر ثابت کردیا ہے کہ پاکستانیوں کی قسمت کے فیصلے کہیں اور ہی ہوتے ہیں ابھی کل ہی کی بات ہے کہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف ایک دوسرے کو بڑا بھائی بول رہے تھے اور یہ بھی ابھی اتنی پرانی بات نہیں ہوئی۔
جب متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم )اور مسلم لیگ (ن) کے لیڈر آپس میں دست وگریبان تھے ایک دوسرے کے گھروں تک کو تنقید کانشانہ بنایا جاتا رہا مگر جب بات مفادات کی ہوتو اس وقت سب گلے شکوے گلے لگا کر ختم کردیے جاتے ہیں اگرپاکستان میں اسی طرح کی سیاست بازی ہونی ہے تو پھر ملک کے حالات سدھرتے ہوئے نظر نہیں آتے کیونکہ جن حکمرانوں کے قول فعل میں تضاد ہو جو اپنی کہی ہوئی بات پر قائم نہ رہ سکیں اور تو اور ایک دوسروں پر ذاتی حملے کرنے والے وقت پڑنے پر ایک دوسرے کو بھائی بنا لیں توبیچاری غریب اور پسماندہ قوم کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ مستقبل کے سنہری خواب دکھانے والوں نے اپنا مستقبل سنہری بنا لیا۔
جن سے ووٹ لیے تھے ان کو ایک بار پھر انہی کے حال پر چھوڑ دیا گیا اس کے ساتھ ساتھ اب ملک کا کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں جو متنازعہ نہ ہو ابھی تو اس حکومت کو بنے ہوئے صرف چند مہینے ہوئی ہوئے ہیں اور چاروں طرف سے ایک شور بلند ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا اگر یہ صورتحال اسی طرح رہی تو شائد ہی یہ حکومت اپنی مدت پوری کرسکے اور یہ اس ملک کی بدقسمتی ہوگی کیونکہ ملک میں وقت سے پہلے اور بار بار کے ہونے والے الیکشن بھی انتہائی خطرناک ہوتے ہیں جس سے نہ صر ف سیاستدان اور سیاسی جماعتیں بدنام ہوتی ہیں بلکہ ملک کا کثیر سرمایہ بھی خرچ ہوتا ہے۔
Train
اگر ہم نے پاکستان کو ترقی کی منزل پر پہنچانا ہے تو سب سے پہلے ہمیں اپنے سیاسی مفادات سے بالا تر ہو کر اس کی سمت کا تعین کرنا ہو گا کہ ملک کی ترقی کا یہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم دنیا کی ترقی یافتہ قوموں میں اپنا شمار کروا سکیں جس وقت ہم اپنی سمت کا تعین کرلیں تو اسکے بعد اسکا سفر شروع ہوتا ہے مثال کے طور پر ایک مسافر نے ٹرین پر سفر کرنا ہے اور اسکی منزل اسلام آباد سے کراچی ہے اگر تو ٹرین اپنے ٹریک پر چلتی رہے بے شک راستے میں اسکا انجن بھی فیل ہوجائے ،آندھی آجائے ،طوفان آجائے،سیلاب آجائے یااسکے راستے میں کوئی بھی کتا بلا آجائے وہ اسے روندتی ہوئی بلاآخرمسافروں کو لیکر اپنی منزل مقصود تک پہنچ ہی جائے گی۔
ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے مقررہ وقت سے دو گھنٹے یا دو دن تاخیر سے پہنچے مگر پہچ لازمی جائے گی اگر اس ٹرین کو ہم ٹریک سے ہی اتار دیں اور لوہے کی پٹری کی بجائے اسے ہم بہت ہی اعلی قسم کی بنائے ہوئی سڑک پر لے جائیں اور پھر اپنی پوری توانائیاں اس ٹرین کو کراچی پہنچانے پر لگا دیں تو وہ کیسے اپنی منزل مقصود تک پہنچے گی بے شک پوار پاکستان ملکر اس ٹرین کو دھکا لگائے یہی حال ہمارے ساتھ ہمارے دشمنوں نے کررکھا ہے انہوں نے آج تک ہماری سمت ہی طے نہیں ہونے دی کہ ہم نے جانا کہا ں ہے اوریہ بھی ہمیں معلوم نہیں کہ کس نے ہمیں منزل تک پہنچانا ہے۔
ہم اپنے بھاری بھرکم لیڈروں کو اپنا ہیرومان کر انکے پیچھے انکھیں بند کرکے چلتے رہتے ہیں اور جب عمر گذر جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ہم تو کولھو کے بیل کی طرح اپنی آنکھوں پر پٹی باندے اپنے ہی ارد گرد گھوم رہے تھے اور جنہوں نے ہمیں گھمایا وہ اپنی منزل تک پہنچ گئے انکے بچوں نے ملک سے باہر جائیدادیں بنا لی جبکہ پاکستان اور پاکستانی عوام اسی طرح آج بھی زندگی گذار رہے ہیں جیسے پاکستان کے ابتدائی دن تھے یاد رکھیں اگر ہم نے اب بھی اپنی منزل تک پہنچنا ہے تو ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنی سمت کا تعین کرلیں۔
پھر اسکے بعد بیشک ٹھیلے پر ہی بیٹھ جائیں اور اسکے دھکا لگاتے جائیں ایک دن آئے گا کہ ہم اپنی منزل پالیں گے ایسی منزل جہاں ہر طرف سکون ،راحت اور خوشحالی ہوگی جہاں ہمیں نہ حکمرانوں کے خالی نعروں سے کوئی غرض ہوگی اور نہ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے گھنٹوں لمبی لائن میں انتظار کرنا پڑے گا ہمیں اب انتظار ہے تو صرف ایسے حکمرانوں کو جو ملک کے وسیع تر مفاد میں عوام کا گلا نہ کاٹیں بلکہ ٹرین کے نیچے چلنے والے پہیے کی وہ سپورٹ بنیں جو اتنی بھاری بھرکم ٹرین کو پٹڑی سے اترنے نہیں دیتی۔