صدارتی انتخاب میں ایک ہزار ایک سو تئیس اہل ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ ارکان اسمبلی کے پولنگ بوتھ میں موبائل ساتھ لے جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ آئندہ پانچ برس تک مملکت کا سربراہ کون ہوگا۔ فیصلے کی گھڑی آن پہنچی۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کو پولنگ سٹیشنز کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ صبح دس بجے شروع ہونے والی پولنگ سہ پہر تین بجے تک جاری رہے گی۔ اسمبلیوں کا کنٹرول سپیکر کی بجائے ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کے پاس ہوگا۔ صدارتی انتخابات میں ووٹ کا حق استعمال کرنے کیلئے اہل ووٹرز کی تعداد ایک ہزار ایک سو تئیس ہے۔
انتخابی فہرست کے مطابق سینیٹ کے 103، قومی اسمبلی کے 324، پنجاب اسمبلی کے 352، سندھ اسمبلی کے 163، خیبر پختونخوا اسمبلی کے 120 اور بلوچستان اسمبلی کے 61 ارکان اہل ووٹرز ہیں۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی 51 نشستیں نااہلی اور ضمنی انتخابات کے باعث خالی ہیں۔ صدارتی انتخاب کیلئے کل 1500 بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ہیں۔ بیلٹ پیپر میں حروف تہجی کے اعتبار سے پہلا نام ممنون حسین جبکہ دوسرا نام وجیہہ الدین احمد کا ہے۔
ارکان کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنی پسند کے امیدوار کے نام کے سامنے مخصوص پنسل سے کراس کا نشان لگائیں بصورت دیگر ووٹ مسترد تصور ہو گا۔ پیپلز پارٹی کے بائیکاٹ کے باعث 150 سے زائد ارکان اسمبلی و سینیٹ اپنے ووٹ کاحق استعمال نہیں کریں گے۔ صدارتی انتخاب میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ہر رکن کا ایک ووٹ ہو گا۔
مگر کسی بھی صوبائی اسمبلی کے ووٹ بلوچستان اسمبلی کے ارکان کے برابر یعنی زیادہ سے زیادہ 65 ہونگے۔ قانون میں درج فارمولے کے مطابق پنجاب اسمبلی کے کل ووٹ 62 سندھ اسمبلی کے کل ووٹ 63، خیبر پختونخوا اسمبلی کے بھی 63 جبکہ بلوچستان اسمبلی کے کل ووٹ 61 ہیں اور یوں 676 ووٹوں پر مشتمل الیکٹورل کالج نئے صدر مملکت کا انتخاب کرے گا۔
الیکشن کمیشن نے ارکان اسمبلی کو اپنے اظہار رائے خفیہ رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے پولنگ بوتھ میں موبائل ساتھ لے جانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ الیکشن کمیشن نے پریذائیڈنگ افسروں کو ہدایت کی ہے کہ ووٹنگ کا وقت ختم ہوتے ہی نتیجہ فیکس کے ذریعے الیکشن کمیشن کو پہنچایا جائے تاکہ پولنگ کے روز ہی حتمی نتیجے کا اعلان کر دیا جائے۔