امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ۔ آپ کا نام نامی علی، کنیت ابو الحسن و ابو تراب ہے اور والدہ کی جانب سے لقب حیدر(شیر)ہے آپ والد اور والدہ دونوں طرف سے ہاشمی اور آحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی چچا زاد بھائی تھے آپ بعثت نبوی سے تقریبا دس برس پہلے پیدا ہوئے خوش قسمتی کی حد یہ ہے کہ آ غوش نبو ت میں تربیت پائی ۔ہادی برحق نے اعلان نبوت فرمایا تو آپ نے فورا اسلام قبول کر لیا آپ نے نو عمروں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا ،اسلام لانے کے وقت آ پ کی عمر شریف کیا تھی ؟اس میں چند اقوال ہیں۔ایک قول میں آپکی عمر پندرہ سا ل،ایک میں سولہ سال ،ایک میں آٹھ سال، ایک میں دس سال ۔لیکن آپ ابتدائے عمر میں ہی دولت ِ ایمان سے مشرف ہو ئے۔
سیرت علی: حضرت علی المرتضیٰ نے چونکہ ایام طفولت سے ہی سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دامن ِ عاطفت میں تربیت پائی تھی اس لئے وہ محاسن اخلاق اور حسن سیرت کے نمونہ تھے آپ کی زبان کبھی کلمہ شرک و کفر سے آ لود ہوئی اور نہ آپکی پیشانی غیر خدا کے سامنے جھکی ،دور جاہلیت میں ہر قسم کے گناہ سے پاک رہے ،شراب کے ذائقہ سے اسلام سے پہلے بھی آپ کی زبان آشنانہ ہو ئی۔ صحابہ کراممیں حضرت علی اپنے علم فضل اور جرات شجاعت کے باعث ممتاز تھے آ پ بڑے بلند حوصلہ اور غیر معمولی ہمت و استقلال کے مالک تھے آپکی ذات ،ستودہ صفات اخلاق حسنہ کا پیکر اور اوصاف حمیدہ کا مجسمہ تھی۔
زہدو ورع: آ پ کی ذات گرامی نمو نہ زہد تھی بلکہ حق یہ ہے کہ آ پکی ذات پر زہدکا خاتمہ ہو گیا۔آپ کے کا شا نہ فقر میں دنیاوی شان و شکوہ کا گزر نہ تھا،کوفہ تشریف لائے تو دارلامارت کے بجائے ایک میدان میں فرکش ہوئے اور فرمایا عمر بن خطاب نے ہمیشہ ان عالی شان محلات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا ہے ۔اپنے عہد ِ خلافت میںآپ نے مسلمانوں کی امانت بیت المال کی جس انداز میں حفاظت کی اس کا اندازہ حضرت ام کلثوم کے اس بیان سے ہو سکتا ہے کہ ایک دفعہ نا رنگیاں آئیں، امام حسن اور امام حسین نے ایک نارنگی اٹھا لی۔ حضرت علی نے دیکھا تو چھین کر لوگوں میں تقسیم کر دیں(ازالتہ الخفاء بحوالہ ابن ابی شیبہ)
کسب حلال: ایام خلافت میں بھی زہد کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا اور آپکی زندگی میں کوئی فرق نہ آیا۔موٹا لباس اور روکھا پھیکا کھانا ،ان کے لئے دنیا کی بڑی نعمت تھی،معاش کی یہ حالت تھی کہ ہفتوں شدت میں کاشانہ اقدس سے مزدوری کے لئے نکلے، دیکھا تو ایک ضعیفہ اپنا باغ سیراب کرنا چاہتی ہے اس کے پاس جا کر اجرت طے کی اور پانی سینچنے لگے ،یہاں تک کہ ہاتھوں میں آ بلے پڑ گئے اس محنت مشقت کے بعد ایک مٹھی کھجوریں اجرت ملی۔ لیکن تنہاخوری کی عادت نہ تھی ،کھجوریں لے کر بارگا ہ نبوت ۖمیں حاضر ہوئے آنحضرت ۖ نے تمام کیفیت سن کر نہایت شوق کے ساتھ کھانے میں ساتھ دیا(مسند ابن حنبل ص٣٥)
شیر خدا کا لقب : در دولت پر کوئی دربان نہ تھاعین اس وقت جب قیصر و کسریٰ کی شہنشاہی مسلمانوں کے لئے زرو جو ہراگل رہی تھی اسلام کا خلیفہ ایک معمولی غریب کی طرح زندگی بسر کر رہا تھا تمام غزوات میں آپ نے نمایاں حصہ لیا اور بے مثال جرات و بہادری کا ثبوت دیا ،آنحضرت ۖنے غزوہ بدر میں بہادری کے جوہر دکھانے پر آپ کو ایک تلوار ”ذوالفقار”عطا فرمائی تھی آپ نے بڑے بہادروں کو شکست دی، حضور ۖ نے چند مقامات پر آ پ کو جھنڈا عطا فرمایا ،خصوصا روز خیبر اور خبر دی کہ علی المرتضیٰ کے ہاتھوں فتح ہو گی۔
Qila Khyber
آ پ نے اس روز قلعہ خیبر کادروازہ اپنی پشت پر رکھا اور اس پر مسلمانوں نے چڑھ کر قلعہ کو فتح کیااس کے بعد لوگوں نے اسے کھینچنا چاہا تو چالیس آدمیوں سے کم اسے اٹھا نہ سکے ،جنگ تبوک کے موقع پر حضور ۖ نے حضرت علی کو خلیفہ مدینہ بنایا تھا اور ارشاد فرمایا تھا کہ:تمہیں ہماری بارگاہ میں وہ مقام مرتبہ حاصل ہے جو حضرت موسیٰ کی بارگاہ میں حضرت ہارون(علیہم الصلو ٰ ة والسلام)آپ کو آج لوگ ”شیر خدا”کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
ازواج و اولاد: سیدہ خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بعد آپ نے مختلف اوقات میں شاد یاں کیں ان کے جیتے جی دوسرا نکاح نہ کیا،ان کے بطن سے حضرت حسن ،حضرت حسین ،حضرت محسن اور لڑکیوں میں زینب الکبریٰ اور ام کلثوم الکبریٰ پیدا ہوئیں۔ محسن نے بچپن میں ہی وفات پائی،حضرت فاطمہ کی وفات کے بعد چودہ نکاح کیے۔
انتظامی معاملات: ملکی نظم و نسق میں سب سے اہم کام عمال کی نگرانی کا ہے حضرت علی نے اس کا خاص انتظام کر رکھا تھاوہ جب کسی عامل کو مقرر کرتے تھے اس کو نہایت مفید اور گراں بہا نصیحتیں کرتے تھے حضرت عمر کی طرح کوڑا ہاتھ میں لے کر اکثر رات کو گشت کرتے تھے ،حضرت علی نے محاصل کے صیغہ میں خاص اصلاحات جاری کیں۔حضرت علی کا وجو د باجود رعایاکے لئے آ ئینہ رحمت تھا بیت المال کے دروازے غریب غربا اور مساکین کے لئے کھلے رہتے تھے ،اس میں جو بھی رقم جمع ہو تی،نہایت فیاضی سے مستحقین میں تقسیم کر دی جاتی تھی ،ایران میں کئی بار بغاوتیں ہوئیں لیکن آپ نے ہمیشہ لطف و کرم سے کام لیا یہاں تک کہ ایرانی ا س لطف و کرم سے متاثر ہو کر کہتے تھے کہ اس عربی نے تو نوشیروان کی یاد تازہ کر دی۔
فو جی انتظامات: حضرت علی رضی اللہ عنہ خود ایک بڑے تجربہ کار جنگ آزما تھے اور جنگی امور میں آپ کو بڑ ی بصیرت حاصل تھی اس لئے اس سلسلہ میں آپ نے بڑے انتظاما ت کیے،چنانچہ شام کی سر حد پر نہایت کثرت کے ساتھ فوجی چوکیاں قائم کیں۔ جنگی تعمیرات کے سلسلے میں دریائے فرات کا پل جو کہ صفین میں فوجی ضروریات کے خیال سے تعمیر کیا قابل ذکر ہے۔
شہا دت : جنگ نہروان کے بعد خارجیوں نے حج کے مو قع پر جمع ہو کر مسائل حاضرہ پر بحث کی،بحث و مباحثہ کے بعد انہوں نے حضرت علی کو شہید کرنے کا فیصلہ کیا، عبدالرحمن بن ملجم نے کہا قتل کا ذمہ میں لیتا ہوں،ابن ملجم پہلے حضرت علی کی فوج میں تھا صفان کی جنگ میں آپ کے زیر کمان شریک ہو ا تھا لیکن بعد میں خارجی ہو گیا تھا جب وہ اپنے ارادے کو عملی شکل دینے کے لئے کوفہ آیا تو اس کی ملاقات قطام نامی ایک حسین عورت سے ہوئی ،ابن ملجم نے اس سے شادی کی درخواست کی اس عورت نے مہر میں حضرت علی کا خون شرط ٹھہرائی،اس واقعہ نے ابن ملجم کے ارادوں کو اور پختہ کر دیا(البد ایہ ولنہایہ)۔
رمضان کا وسط تھا اور حضرت علی معمول کے مطابق نماز فجر کے لئے گھر سے نکلے ،ابن ملجم اور اس کے ایک سا تھی نے وار کیا جو خطا ہو گیا،ابن ملجم نے تلوار چلائی جو پیشانی پر پڑی ابن ملجم پکڑا گیا اور اس کے سا تھی روپوش ہو گئے حضرت علی اتنے زخمی تھے کہ زندگی کی کو ئی امید نہ تھی تلوار زہر آ لود تھی اس لئے طبیعت زیادہ تشویشناک ہو گئی ۔اسی دن ابن ملجم کو آپ کے سا منے پیش کیا گیاآ پ نے اسے بیٹھنے کا حکم دیا اور نرمی سے پوچھا کی تم نے میری جان کا قصد کیوں کیا وہ کوئی معقول جواب نہ دے سکا۔
اس کا جرم ثابت تھاآپ نے حضرت حسن سے کہا اگر میں جانبر نہ ہو سکا تو ابن ملجم کو اسی طرح ایک وار سے قتل کرنا جس طرح اس نے ایک وار سے مجھے زخمی کیا اسے اذیت نہ دینا اور نہ ہی اس کے اعضاء کاٹنا اور سوائے میرے قاتل کے کسی پر ہاتھ مت اٹھانا۔(تاریخ طبری)یوں آپ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے 21رمضان مبارک کو شہید ہو گئے اور دوسرے دن ابن ملجم کو حضرت امام حسن کے سا منے پیش کیا آپ نے حضرت علی کی وصیت کے مطابق ایک ہی وار میں اس کا سر اڑا دیا۔ حضرت علی نے تقریبا 61 برس کی عمر پائی ،خلافت کی مدت چار سال نو ماہ ہے۔