رمضان المبارک اپنی تمام تر فضیلتوں، نعمتوں اور برکتوں کے ساتھ ہم پرسایہ فگن ہے۔ اللہ کے نیک بندے عبادتوں اور ریاضتوں کے ذریعے نیکیوں سے اپنے اپنے دامن بھررہے ہیں۔ دن روزوں میں گزر رہے ہیں تو راتیں قرآن کی تلاوت ،نمازوں و مناجات سحر گاہی میں گزر رہی ہیں۔ سب ہی ہشاش بشاش ہیں،سب کے چہرے نورسے پُر نور ہیں۔ مسجدیں بجلی کے قمقموں سے جگ مگ،جگ مگ کر رہی ہیں۔ لوگوں کا یہ حال ہے کہ آبِ رواں کی مانند اللہ کے گھروں کی طرف رواں دواں ہیں۔اللہ اللہ یہ کیسا دلکش اور روح پرور منظر آنکھوں کے سامنے ہے۔ اللہ کے متوالوں کا یہ سیلاب مسجدوں میں ٹھسے پڑے ہیں۔ ایسے میں لوگ سحر و افطار کے لئے خاص ڈشوں کا اہتمام بھی کرنے لگے ہیں۔ اچھے پکوان بنانا، خود کھانا اوروں کو کھلانا، روز کے معمولات میں شامل ہو جاتا ہے۔
افطار میں ہمہ اقسام کے پھل کا ہونا ضروری امر ہے۔ کھجور، افطار کا لازمی جز ہے۔ اور ایسے میں ہمارے یہاں مہنگائی کا سیلاب اُمڈ آتا ہے۔ دوکانداروں اور خوانچہ فروشوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ لوگ کیسے بھی ہواپنے بچوں کے لئے یہ لوازمات ضرور خریدیں گے اس لئے ان تمام کی قیمت ہر سال بڑھتی رہتی ہے۔ یہ تو اس ملک کا خاصہ رہاہے کہ ایک بارجس چیزکی قیمت بڑھ جائے توکم نہیں ہوتے۔ قیمتیں بڑھنے کی مختلف وجوہات بتائی جاتی ہیں جن میں پیٹرول، اور ڈیزل میں مسلسل اضافہ، ناکافی بارش، کبھی بارش کی زیادتی، روپئے کی قیمت میں گراوٹ کو قیمتوں میں اضافے سے جوڑ دیا جاتا ہے حالانکہ اس کی اہم وجہ ذخیرہ اندوزی ہے۔ منافع خور تاجرین اسٹاک کرکے رکھ لیتے ہیں۔
مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے پھر قیمتیں بڑھا کر اسٹاک نکالتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ صارفین کو ان چیزوں کی ضرورت ہے، وہ کسی بھی قیمت میں انہیں خریدیں گے۔ ہر فرد یہ محسوس کر رہا ہوتا ہے کہ عین رمضان المبارک کے قریب اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے لیکن ان کا استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے کسی بھی قیمت پرانہیں خریدنا پڑتا ہے۔ مہنگائی نے ہمارا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ اس کے برعکس ماہِ رمضان کے شروع ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت برسات کی شکل میں ہم پاکستانیوں پر برسنی شروع ہو گئی، ورنہ آسمان پرب ادل آ رہے تھے اور برسے بغیر مسکرا کر جا رہے تھے اور بادلوں کے اس طرح آنے جانے پرہم گنگنا رہے تھے کہ: ” دل کے ٹکڑے، ٹکڑے کرکے مسکرا کے چل دیئے” اس شدید گرمی کے موسم میں اللہ رب العزت اپنے بندوں پربادلوں کا سایہ کرکے روزہ داروں کو اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے مگر ہمارے حکمران کسی بھی سطح پر عوام کے لئے اپنے ہونے کا احساس نہیں دلا پاتے۔
Inflation
یہ ہے زمینی حکمرانوں اور خدائے بزرگ و برتر کی رحم دلی کا فرق۔ (یہ جملہ چونکہ الفاظوں کے سجاوٹ میں بہت خوبصورت جوڑ لگ رہا تھا اس لئے تحریر ہو گیا، ورنہ اللہ کی رحمتوں اور رحم دلی کا مقابلہ کسی سے کہاں کیا جا سکتا ہے نعوذ باللہ!)اٹھارہویں روزے کو کراچی میں بھی بارانِ رحمت برسا۔ گو کہ کھل کر نہیں برسا لیکن بادلوں کے سائے یہاں بھی روزے داروں کے لئے سایہ فگن بنے ہوئے ہیں۔ اور روزہ خوش الہانی سے جاری و ساری ہے۔ خطِ افلاس کے سلسلے میں سیاسی جماعتوں کے درمیان بیان بازی بھلے ہی نئی نہیں لیکن غریبوں اور غریبی کی تعداد کے حوالے سے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ابھی تک ہم آہنگی دیکھنے میں نہیں آئی۔
اگر کسی شعبے میں فی الحال کچھ کمی کی پیشِ رفت ہوئی ہے تو غالباً خواجہ سعد رفیق صاحب اس وقت داد کے مستحق ہیں کیونکہ وہ ایسے محکمے کے وزیر ہیں جو پچھلی حکومت میں تقریباً تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ ایسے میں اس وزیر موصوف نے نہ صرف عیدکے موقعے پرریل کے کرایے میں کمی کا اعلان کیا ہے بلکہ لیٹ ہوتی ہوئی ٹرین کے بارے میں اطلاعاتی (ایس ایم ایس) سروس بھی شروع کی ہے تاکہ سفر کرنے والے افراد ایس ایم ایس کے ذریعے اطلاع پاکر اُسی وقت اسٹیشن پر پہنچے اور جو دن بھر کی خواری سواری حضرات اٹھاتے رہے ہیں اس سے بچ سکیں۔ ویسے تو سب کو ہی اس بات کا پتہ ہے کہ شعبان المعظم نبی کریم صلی اللہ علیہ عالہ وسلم کا مہینہ ہے اور رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کا، مگر اے آر وائی نیٹ ورک کے ایک پروگرام میں ملک کے مشہور و معروف کامیڈین عمر شریف نے بالکل بجا کہا ہے کہ” ہم نے ایک اور مزید مہینے کا اضافہ کر دیاہے اور وہ ہے مہنگائی کامہینہ ” یعنی کہ جس قدر مہنگائی رمضان المبارک میں کیاجاتاہے کسی اور مہینے میں نہیں کیا جاتا۔
Ramadan
کیا ہمارے غریب نادار، و متوسط طبقے کی جیب اس قدر مہنگائی کی اجازت دے رہی ہے اس وقت! شاید نہیں اور یہ ہمیں، آپ کو ہی نہیں بلکہ حکمرانوں کو بھی معلوم ہے کہ وہ کیا تنخواہ دیتے ہیں اور مہنگائی کتنی ہے اس میں کسی کا بھی گھرکا خرچ ٹھیک طرح سے نہیں چل پاتا مگر پھر بھی مہنگائی پر کنٹرول نہیں کیا جا رہا۔ میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ مارکیٹ جاکر فوری جرمانہ کر دیا جاتا ہے یا پھر دکاندار حضرات کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ پھر یہ سرکاری نمائندے اور میڈیا کے لوگ چلے جاتے ہیں۔ اس کے بعد جتنا جرمانہ انہوں نے لاگو کیا تھا اس کو بھی اس مہنگائی میں شامل کر کے عوام کا خون نچوڑ ا جاتا ہے۔ اور عوام آہیں بھرتے رہ جاتے ہیں۔ ایسے دور میں جب دنیا ہر میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہے۔ ہم مہنگائی کے تلے روندے جا رہے ہیں۔ تعلیم و ترقی سے بھی دور ہیں اور تعلیم و ترقی سے اس لئے بھی دور ہیں کیونکہ ہم مذہب سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
شاعر نے کیا خوب کہاہے کہ: حیرت ہے تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا تھا
اس ملک کا ہر غریب بس سوچتے، فکر کرتے، الجھنوں کو دور کرنے کی تگ و دو کرتے، آسائیشوں کا خواب دیکھتے، اپنی زندگی گزار رہا ہے۔ مگر یہ سب کچھ سوچتے اور دیکھتے ہوئے نہ جانے کتنے ہی غریب منوں مٹی تلے جا پہنچے ہیں۔ اور جو بچے ہوئے ہیں وہ بھی ایک دن اس دارِ فانی سے کوچ کر جائیں گے مگرکیا ان کی زندگی میں ان کے حالات بدل پائیں گے یہ ایک تلخ سوال ہے جو حل ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ غریب تو آزمائشوں کی زندگی گزارتے گزارتے قبر میں اتر جاتا ہے۔ غریبوں پر ایک شاعر نے کیا خوبصورت شعرکہا ہے: دو گز زمین مل ہی گئی مجھ غریب کو مرنے کے بعد میں بھی زمین دار ہوگیا بہرحال مضمون میں کچھ باتیں تلخ ضرور ہیں جو بہتوں پر گراں گزریں گی، لیکن چونکہ یہ ساری باتیں سچ ہیں، اور سچ تو ہوتا ہی کڑوا ہے۔
اس لئے اسے دوا کے طور پر نگل لیں تو شاید معاشرے میں پھیلے امراض اور متعدی بیماریوں کے لئے شفاء کا سبب بھی بن جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ماہِ مبارک کے معنی و مفہوم اور اسکے تقاضوں کو سمجھنے کا حقیقی شعور بخشے اور اس پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ تبھی روزہ اور قرآن ہماری شفاعت بھی کریں گے اور تبھی ہم اللہ کے حضور سرخرو بھی ہو سکیں گے۔