گورنر ہائوس اور مہہ کدہ

Ch Server

Ch Server

چوہدری سرور کو پنجاب کا نیا گورنر بنانے کے لیے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے سمری صدر مملکت کو بھجوا دی ہو سکتا ہے کہ جب یہ کالم آپ پڑھ رہے ہوں اس وقت تک وہ حلف اٹھا چکے ہوں یا اٹھانے کی تیاریوں میں مصروف ہوں چوہدری صاحب کے نام کے پاکستان میں پہلے ہی بہت چرچے ہیں اور انکی پاکستان اور پاکستانی عوام کے حوالہ سے جو خدمات ہیں وہ بھی ناقابل فراموش ہیں مگر جب سے انکا نام بطور گورنر پنجاب کے حوالہ سے زیر گرش تھا اسی دن سے انکے شوق اور انکے کاروبار کے بارے میں بھی بہت سی باتیں زیر گردش تھی۔

ان سب باتوں کے بعد ہمیں پچھلے تمام وہ گورنر بھی یاد آ گئے جنہوں نے اس گورنر ہائوس کی حسین شاموں کو اور بھی دلفریب بنانے کے لیے یہاں خوبصورت محفلوں کا نعقاد بھی کیا اور یہاں پر ایسے ایسے زاہد لوگوں کو بھی ان محفلوں کا حصہ بنتے دیکھا کہ مجھے عزیز میاں کی وہ قوالی یاد آ گئی جسے سن کر اکثر لوگوں پر بڑی وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔

اب جبکہ چوہدری سرور پنجاب کے نئے گورنر بننے جارہے ہیں انکی زندہ دلی اور عوام سے محبت کے چرچے تو ہم بھی بہت سن چکے ہیں مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ بھی سابق گورنر صاحبان کی طرح جن میں سے دو کے قصے تو بہت مشہور ہوئے تھے ایک جناب غلام مصطفی کھر صاحب اور دوسرے جناب سردار ذوالفقار کھوسہ صاحب جن کی محفل سے کوئی بھی دوست خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا کیا اب پھر وہ شامیں وہی دن دوبارہ لوٹیں گے یا چوہدری صاحب کام کو کام سمجھ کر اسی جذبہ سے عوام کی خدمت کریں گے جس جذبہ سے وہ برطانیہ میں رہ کرکرتے رہے ہیں اور جہاں تک ہمارے تجربات ہمیں بتاتے ہیں کہ بطور پاکستانی شہری ہم آج تک ایک قوم نہیں بن سکے ہم اپنوں سے زیادہ غیروں کے وفادار ہیں پاکستان میں رہتے ہوئے ہم جس شاخ پہ بیٹھے ہوتے ہیں۔

Hospitals

Hospitals

اسی کو کاٹنا شروع کر دیتے ہیں اور جس برتن میں پیتے ہیں اسی میں چھید کرکے ہمیں خوشی محسوس ہوتی ہے ایک دوسرے کو دیکھنا برداشت نہیں کرتے تھانہ کچہریوں میں جھوٹے مقدمات کی بھر مار ہے ہماریں جیلیں جرائم کی یونیورسٹیاں بن چکی ہیں ہمارے سرکاری ادارے عوام کی عزت نفس کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مجروع کرتے ہیں اپنے اپنے گھروں کا کوڑا ہمسایوں کے دروازوں پر رکھ کر خوش ہو جاتے ہیں ہسپتالوں میں غریب، بے بس اور مجبور وں کو لمبی لمبی لائینوں میں لگا کر ہم اپنے دل کی تسکین کرتے ہیں دوران آپریشن مریضوں کے اعضاء چوری کر کے انہیں بھاری قہمت پر آگے فروخت کرنا ہمارا مشغلہ بن چکا ہے ہمیں سے ووٹ مانگ کر جب اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتے ہیں تو پھر ہمیں سے خطرہ محسوس کرکے ہماری نظروں سے دور ہو جاتے ہیں۔

باپ کے بعد بیٹا پاکستانیوں کی خدمت کے لیے مفت میں مل جاتا ہے اپنے ملک کو غیر اور غیر کے ملک کو اپنا سمجھنے والے بڑی بے دردی سے عوام کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں یہی لوگ جب تک پاکستان میں ہوتے ہیں جی بھر کر گند ڈالتے ہیں جب باہر چلے جاتے ہیں ایسے مہذب شہری بن جاتے ہیں کہ جیسے انہوں نے آج تک گھر سے باہر قدم ہی نہیں نکالا اور قانون کے اتنے پابند کہ جس ملک میں ہوتے ہیں وہاں کے شہری ان سے سبق حاصل کرتے ہیں بات کہاں سے شروع ہوئی تھی۔

کہاں پر جا پہنچی میں ذکر کرہا تھا نئے گورنر پنجاب کا اور مجھے امید ہے کہ نئے گورنر پنجاب بھی اس عظیم اشان بلڈنگ کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے اپنے دوستوں کی تواضح جاری رکھیں گے پاکستان کے بڑے نامور قوال عزیز میاں تو اس وقت دنیاں میں نہیں مگر انکے بیٹے اور میرے عزیز دوست جناب جنید عزیز میاں کی اجازت سے عزیز میں کی قوالی اپنے ناظرین کی دلچسپی کے لکھ رہا ہوں۔

بڑی حسین ہے ذلفوں کی شام پی لیجیئے اور ہمارے ہاتھ سے دو چار جام پی لیجیئے، اور پلائے جب کوئی معشوق اپنے ہاتھوں سے شراب پھر نہیں رہتی حرام پی لیجیئے، شوق مجھ کو پینے کا زیادہ نہ تھا ترک توبہ کا کوئی ارادہ نہ تھا، ارے مجھ پہ تہمت نہ رکھ میں شرابی نہیں وہ نظر سے پلائے تو میں کیا کروں، ارے میں میں شرابی فصل گل ہے شراب پی لیجیئے شرم کیسی جناب پی لیجیئے اور جو پیئے چھپ کے وہ منافق ہے بے تکلف شراب پی لیجیئے، آگے چل کر حساب ہونا ہے۔

اس لیے بے حساب پی لیجیئے، ارے جنت جو ملے لاکر مے خانے میں رکھ دینا اور کوثر کو میرے چھوٹے سے پیمانے میں رکھ دینا، ارے میت نہ میری جا کر ویرانے میں رکھ دینا بلکہ پیمانوں میں دفنا کر مہہ خانوں میں رکھ دینا، ایک کام اور کریں ساقی در مہہ خانہ ابھی بند نہ کرنا شائد مجھے جنت کی ہوا راس نہ آئے، ارے میں، میں شرابی تاج و تخت و حکومت نہیں مانگتا ارے دین ودنیا کی ثروت نہیں مانگتا میرے ساقی میرا ایک کام کر مہہ خانہ میرے نام کر، کل رات مہہ کدے میں عجب حادثہ ہوا زاہد شراب پی گیا میرے حساب میں۔

Rohail Khan

Rohail Khan

تحریر : روہیل اکبر
03466444144