سید ممنون ن لیگ کے ممنون

Election

Election

صدر پاکستان کا الیکشن اللہ کا شکر ہے بخوبی سرانجام پاگیا ہے۔ پہلے سے معلوم نتائج کے مطابق ن لیگ کے امیداوار نے واضح اکثریت سے اپنے مدمقابل پہلوان کو پچھاڑ دیا ہے۔ الیکشن کوئی بھی اس میں ایک دوسرے پر الزامات ضرور لگائے جاتے ہیں مگر یہ واحد الیکشن ہے جس میں نہ ہی حکومت پر اور نہ ہی کسی اور پر دھاندلی کے الزام عائد کئے گئے بلکہ اس بار اپوزیشن کی تنقید کا حدف صرف اور صرف سپریم کورٹ آف پاکستان تھی جس کے فیصلے کے خلاف سابقہ حکومت یا موجودہ صدر (موجودہ صدر اس لیے کہ ابھی زرداری صدر ہیں)کی پیپلز پارٹی نے صدر کے انتخاب کا بائیکاٹ کردیا۔اپوزیشن اور حکومت کی اس کشمکش میں صدارتی الیکشن کامیابی سے ہمکنار ہوگیا۔

اور پاکستان مسلم لیگ کے نامزد امیدوار سید ممنون حسین انے اپنے مد مقابل تحریک انصاف کے امیدوار ریٹائرڈ چیف جسٹس وجیہ الدین کو واضح فرق سے شکست سے ہمکنار کردیا۔ پاکستان کے نومنتخب صدر سید ممنوں حسین پاکستان کے بارہویںصدر ہیں۔ان کاصوبہ سندھ کے مشہورشہر کراچی سے تعلق ہے۔ممنون حسین 23 دسمبر 1940 کو ہندوستان کے شہر آگرہ میں پیدا ہوئے۔ پاکستان کے قیام کے بعد دیگر خاندانوں کی طرح ان کا خاندان بھی نقل مکانی کرکے پاکستان آ گیا۔پاکستان ہجرت کے بعد ان کے والد کا جوتے بنانے کا کارخانہ تھا۔ ممنون حسین پانچ بھائیوں اور دو بہنوں میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ پاکستان ہجرت کے بعد ان کے خاندان نے 1949 میں کراچی کے اولڈ سٹی ایریا میں رہائش اختیار کی۔

اور وہیں کپڑے کے کاروبار سے منسلک ہو گئے۔ ممنون حسین نے ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی اور پھر کراچی یونیورسٹی سے بی اے آنرز کیا۔ انہوں نے 1965 میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی سے ایم بی اے کیا۔ ممنون حسین تین بیٹوں کے والد ہیں ان کے تینوں بیٹے بینکاری کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ممنون حسین پیشے کے اعتبار سے کپڑے کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ اور ایک عرصے تک وہ خود اپنا کاروبار چلاتے ر ہے ہیں۔ تاہم نوے کی دہائی کے آخر میں وہ مسلم لیگ ن کی سیاست میں سرگرم ہوئے۔ ممنون حسین 1997 میں سندھ کے وزیر اعلیٰ لیاقت جتوئی کے مشیر رہے۔ میاں نواز شریف کی قربت کی وجہ سے انہیں جون 1999 میں سندھ کا گورنر بنایا گیا۔

لیکن بارہ اکتوبر کو میاں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد ممنون حسین کو بھی گورنر کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ تاہم وہ دوران اسیری اور جلاوطنی کے دنوں میں میاں نواز شریف اور ان کے خاندان سے رابطے میں رہے۔ ممنون حسین ایک نرم گو اور محب وطن انسان ہیں۔ بقول ان کے پڑوسیوں کے کہ ان کے دل میں ملک کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے مگر اس کے باوجود اپوزیشن ان کے بارے میں مختلف قیاس آرائی کررہی ہے۔ اپوزیشن کے مطابق نومنتخب صدر نواز شریف کے لیے بس نام کے صدر ہونگے۔ ویسے تو اب صدر کا عہدہ بس نام کا رہ گیا ہے کیونکہ سابقہ دور میں صدر زرداری نے تمام اختیارات وزیر اعظم کو منتقل کردیے تھے۔

Mian Nawaz Sharif

Mian Nawaz Sharif

یاد رہے کہ مسلم لیگ نواز نے کراچی سے تعلق رکھنے والی قیادت کا دوسری بار انتخاب کیا ہے، ممنون حسین سے پہلے مشاہد اللہ کو پنجاب سے سینیٹر منتخب کرایا گیا۔ صدارتی امیدوار کی دوڑ میں پرانے لیگی سید غوث علی شاہ بھی شامل تھے، جو اسیری اور جلاوطنی میں میاں نواز شریف کے ساتھ رہے لیکن بعد میں ان کا نام امیدواروں کی فہرست سے خارج کردیا گیا۔ اٹھار ہویں آئینی ترمیم کے بعد صدر پاکستان کا کردار روایتی بن چکا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نواز اس سے اردو بولنے والی کمیونٹی اور تاجروں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ انھوں نے ان کے نمائندے کا انتخاب کیا ہے۔ سید ممنون حسین پہلے صدر ہیں جن کو پارلیمان کا کوئی تجربہ نہیں۔

بے شک ان کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے مگر انہوں نے آج تک پارلیمنٹ میں قدم نہیں رکھا۔ انہوں نے بظاہرن لیگ کی بنیادی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا تاکہ وہ غیر سیاسی صدر کہلا سکیں مگر اس کے باوجود تجزیہ نگار یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک نمائشی اقدام ہے اور ممنون حسین صدارت ملنے پر نوازشریف کے ممنون ہی رہیں گے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نومنتخب صدر کو پاکستان کی خدمت کرنے کی ہمت دے۔ ان کو نمائشی صدر کے بجائے ملک کا حقیقی صدر بننے کی توفیق دے۔عوام کو اس سے غرض نہیں کہ ان کا عہدہ نمائشی ہے یا حقیقی مگر وہ صدر پاکستان کو ملک کا مضبوط اور ہمت والا صدر دیکھنا پسند کرتے ہیں۔وہ نومنتخب صدر سے اپنے مسائل حل کرنے کی امید رکھتے ہیں۔

آخر میں میں نومنتخب صدر سید ممنوں حسین کو اپنی طرف سے، کالمسٹ کونسل آف پاکستان کی ٹیم کی جانب سے، وائس آف یوتھ اور پاک نیوز لائیو کی جانب سے دل کی اتھا گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ امید کرتے ہیں کہ ملک ان کی قیادت میں دہشت گردی، ڈرون حملوں اور لوڈ شیڈنگ جیسے مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

Aqeel Khan

Aqeel Khan

تحریر : عقیل خان
aqeelkhancolumnist@gmail.com