چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سَر اٹھا کے چلے

Quaid-e-Azam Mohammad Ali Jinnah

Quaid-e-Azam Mohammad Ali Jinnah

تاریخ سے واقفیت رکھنے والا ہر ذی شعور فرد بشر اس حقیقت سے بالکل آشنا ہو گا کہ بیسویں صدی کے اوائل میں برصغیر ہندکی جو حالت تھی وہ ناگفتہ بہ ہے۔ فرنگیوں کے ظلم و جبر سے ہندوستان میں بسنے والے مسلمان باشندوں کا جینا محال ہوچکا تھا۔ غم و اندوہ کادور دورا تھا، بر بریت کا بازار گرم تھا، سیدھے سادھے ہند کے عوام کو مشقِ ستم بنایا جارہا تھا، جبرو استقلال کا پانی سے سے اونچا اٹھتا جارہا تھا، ایسے میں مسلمانوں کے درد کی لڑائی لڑنے والے ملک کے محب اعلیٰ حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی بساط بھراس ظلم کو روکنے کی کوشش کی۔

جس کے لئے انہوں نے تحریک چلائی اور مسلمانوں کے لئے الگ وطن کا مطالبہ کیا۔ اور فرنگیوں کو یہ احساس دلایا کہ مسلمان باشندوں پردرد و کرب کی انتہا ہو گئی ہے، اب ناقابلِ برداشت ہے۔ بہر کیف قائد اعظم کی اس تحریک کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمان باشندوں کا جذبہ بلندہوا اور عزم و استقلال میں مضبوطی پیدا ہوئی، جس کے نتیجے میں فرنگیوں کو ١٩٤٧ء میں منہ کی کھانی پڑی۔ اور مسلمانوں کے ہرطبقہ کے ماننے والوں نے برابر کی قربانی پیش کی، اور ان ہی کے لہو کے بدلے ہمیں آزادی کا پروانہ نصیب ہوا۔

آزادی کے بعد مسلمانوں کی بڑی اکثریت اپنے وطن کو کُوچ کر گئے تاکہ اپنے وطن میں آزادی کی فضا میں زندگی گزاریں۔ اور اس آزادی میں لاکھوں جانیں بھی ضائع ہوئیں مگرلوگوں کے قدم نہیں ڈگمگائے۔ اسلامی ملک پاکستان میں اپنا قانون بنا، دستور سازی ہوئی، پاکستان میں ہرکسی کو برابری کا حق دیا گیا، پوری طرح سے مذہبی آزادی کاحق دیا گیا۔ اس اعتبار سے کسی بھی مذہب کو کسی پر ترجیح نہیں دی گئی بلکہ ہر مذہب والوں کو مساوی حقوق دیئے گئے اور پاکستان ازسر نو ایک دوسرے عہد میں داخل ہوگیا۔ آزادی و جمہوریت کا جشن نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ منایا جانے لگا،

Economic and educational

Economic and educational

ملکی کی سالمیت اور ترقی کے لئے نئے نئے راستے اختیار کئے جانے لگے۔ سیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی اعتبار سے ملک کو مستحکم بنانے کی کوششیں تیزکی گئیں، لیکن اس ملک کی بد نصیبی یہ رہی کہ ایک خاص طبقہ آزادی کے بعدسے ہی مذہبی منافرت کا بیج ڈالتارہا، ابتدائی ایّام میں انہیں کچھ خاص کامیابی نصیب تو نہیں ہوئی البتہ دھیرے دھیرے اس کے اثر و رسوخ مضبوط ہوتے گئے اور حاکمِ وقت تک رسائی ہوگئی، پھر کیا تھا باضابطہ منظم طورپر یہ فرقہ بندی پروان چڑھی۔ اور موقع بہ موقع انہیں مشقِ ستم بناتے رہے۔ اور ہمیشہ ان کے خلاف برسرپیکار رہے۔ جی ہاں یہ بیج آج ایک تناور درخت بن چکاہے۔

اوراپنے ہی ملک میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف تیر آزمائی جاری و ساری ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ آزادی سے لے کر اب تک کئے گئے ظلم و ستم سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے ہم گذشتہ پندرہ بیس سالوں کا جائزہ لیں گے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ کس کس طرح سے مسلمانوں کو ہرموڑپر ناکام کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں، مجھے یہ کہنے میں کوئی الجھن نہیں کہ گذشتہ پندرہ بیس سالوں میں جس قدر مسلمانوں کے اندر تعلیمی بیداری آئی اور جس تیزی کے ساتھ تعلیمی میدان میں نمایاں رول ادا کیا اس سے پہلے کی تاریخ ہمیں ایسی تصویر نہیں دکھاتی۔

لیکن پاکستانی مسلمانوں کی یہ کامیابی اورتعلیمی میدان میں کثرت مذہبی منافرت کے حاملین کو ایک آنکھ نہ بھا سکی، اور شبانہ روز مسلمانوں کی اس بیداری کولے کر خودبیدار رہے اوران کے خلاف مختلف قسم کے حربے اختیار کرتے رہے۔ آج ہمارے ملک کے سامنے دو اہم چیلنجوں کا سامنا ہے اور وہ دونوں ہیں فرقہ پرستی اور دہشت گردی۔جب سے ان دونوں طاقتوں نے اپنا سر ابھارا ہے ملک میں انتشار اور انار کی سی پھیلی ہوئی ہے۔ فرقہ پرست اور متعصب طاقتیں ملک کے عوام کو جابجا کسی نہ کسی بہانے نشانہ بنا کر ان کے عرصۂ حیات کو تنگ کرنا اپنا شیوہ بنا چکی ہیں۔

Justice

Justice

اگر یہی رویہ جاری رہااور ہماری سرکار متعصب ذہنیت کے حامل لوگوں کو روکنے میں کامیاب نہ ہوئیں تو چہ جائیکہ ملک ترقی کرے یہاں خوف و دہشت کاماحول بنا رہے گا۔ ملک میں امن، بھائی چارہ اور یگانگت کے ماحول کو بحال رکھنے کے لئے سرکار کو انصاف کا دامن ہر حال میں تھا منا اور فرقہ پرستی جیسی لعنت کوجڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔ اگر ہماری سرکار اس میں ناکام ہوگئی تو بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں عوام اس کاجواب ضرور دے گی۔ اسی طرح دہشت گردی نے ہمارے ملک کوب ارود کے ڈھیر پر بٹھار کھاہے۔ آئے دن کہیں نہ کہیں انسانی جانوں کے زیاں کا کھیل ہوتا رہتا ہے۔

ملک کاہرشہری اس سے خوف زدہ ہو کرخود کو غیر محفوظ سمجھنے لگاہے۔ جب اعلیٰ عہدوں پر فائز اور انتظامیہ میں شامل معزز شخصیات کوجب جی چاہا، جہاں جی چاہا اپنا شکار بنالیتے ہیں توپھر عام آدمی کس گنتی میں ہوگا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر چہار جانب جنگل ہی جنگل ہے۔ سرکار چاہے کسی کی بھی ہو وہ اگر اپنے عوام کو تحفظ دینے میں ناکام رہے تو پھر اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ حکومت میں رہے۔ ملک میں امن و امان اسی صورت قائم ہوسکتا ہے اور قائد اعظم کاپاکستان اُسی وقت ترقی کرسکتا ہے جب ایسے واقعات کا سدباب کیا جائے۔ عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

تاکہ معاشرہ تشدد سے پاک بن جائے۔پاک ارضِ وطن میں امن و امان ہو، بے روزگاری کاخاتمہ ہوجائے، کرپشن ختم ہو، رشوت خوری کا بازار بند ہو جائے، انصاف فوری مہیا ہو، مہنگائی کاخاتمہ ہو ،آج ملک کاہر نوجوان ڈگری ہاتھوں میں اٹھائے نوکری کی تلاش میں سرگرداں نظر آتا ہے۔ خدا کرے کہ وہ دن جلد ہمارے ارضِ وطن میں آجائے تاکہ ہم بھی دنیا میں سر اُٹھا کر جینے کے قابل ہو جائیں۔

تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی