مختلف مذاہب کے ماننے والے جو تہوار مناتے ہیں اس کے ذریعہ ایک جانب وہ اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں تو وہیں دوسری جانب ان کے عقائد و افکار اور طور طریق کی عکاسی بھی ہوتی ہے اوریہ تہوار مذہب کا ترجمان بنتے ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ مختلف قسم کے تہوار کسی نہ کسی مخصوص تاریخی واقعے، شخصیت یا کسی خاص کامیابی کی یاد سے منسلک ہوتے ہیں۔ پھر یہی وہ تہوار ہیں جن کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو اس کے نتیجہ میں یا تو اس مذ ہب اور اس کی فکر سے قربت قائم کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور دل مائل ہوتا ہے یا پھر ان طور طریقوں کو دیکھ کر کراہت محسوس ہوتی ہے اور دوری اختیار کرنے کا دل چاہتا ہے۔ اسلام وہ عالمگیر دین ہے جو قیامت تک تمام اقوام کے لیے کامیابی و فلاح کا پیغام دیتا ہے اور اس میں کامیابی و ناکامی اور خوشی و رنج کا دارومدار تقویٰ اور نیکی پر ہے۔
اسلام کے ماننے والوں کے لیے سب سے بڑی خوشی اس بات میں پوشیدہ ہے کہ بندہ مومن اپنے شب و روز کے جو کام انجام دے رہا ہے اس کے نتیجہ میں وہ اللہ کامقرب بندہ بن جائے نیز اللہ اور رسولۖ کے احکامات پرعمل کرنا آسان ہو جائے۔ اللہ کے رسولۖ فرماتے ہیں کہ جب نیکی کرکے تجھے خوشی ہو اور برائی کرنے سے رنج ہو تو، تو مومن ہے۔ بندہ مومن ہر کام کرنے سے قبل اور بعد اپنے دل کا جائزہ لیتا ہے اور پھر اس کے ذریعہ یا تووہ مطمئن ہو جاتا ہے یا پھر توبہ و استغفار کا رویہ اختیارکرتا ہے۔
عید الفطر احادیث کی روشنی میں: انس بن مالک رویت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ رسولۖا للہ عید الفطر کے دن جب تک چند چھوہارے نہ کھالیتے، عید گاہ کی طرف نہ جاتے اور چھوہارے طاق عدد میں کھاتے(صحیح بخاری)۔ جابر نے کہا کہ جب عید کا دن ہوتا تو نبی ۖ واپسی میں راستہ بدل کر جاتے(صحیح بخاری)۔ حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں رسولۖ اللہ کے ساتھ عید کے دن نماز کے لیے حاضر ہوا تو آپۖ نے خطبے سے پہلے اذان اور اقامت کے بغیر نماز پڑھائی۔ پھر بلال پر ٹیک لگائے کھڑے ہو گئے، اللہ پر تقویٰ کا حکم دیا اور اس کی اطاعت کی ترغیب دی اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کی پھر عورتون کے پاس جاکر ان کو وعظ و نصیحت کی اور فرمایا کہ صدقہ کرو کیونکہ تم میں سے اکثر جہنم کا ایندھن ہیں، عورتوں کے درمیان سے ایک سرخی مائل سیاہ رخساروں والی عورت نے کھڑے ہوکر عرض کیا کیوں یا رسول ۖاللہ؟ فرمایا: کیونکہ تم شکوہ زیادہ کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری، حضرت جابر فرماتے ہیں وہ اپنے زیوروں کو صدقہ کرنا شروع ہو گئیں، حضرت بلال کے کپڑے میں اپنی بالیاں اور انگوٹھیاں ڈالنے لگیں(صحیح مسلم)۔
ام عطیہ سے روایت ہے کہ ہمیں نبی کریمۖ نے حکم دیا کہ ہم کنواری، جوان اور پردے والیاں عیدین کی نماز کے لیے جائیں اور حائضہ عورتوں کوحکم دیا کہ وہ مسلمانوں کی عید گاہ سے دور رہیں(صحیح مسلم)۔حضرت انس بن مالک نے اپنے غلام ابن ابی عتبہ کو زاویہ گائوں میں نماز پڑھانے کا حکم دیا تو ابن ابی عتبہ نے حضرت انس کے گھر والوں اور بیٹوں کو جمع کیا اور سب شہر والوں کی تکبیر کی طرح تکبیر اور نماز پڑھی اور عکرمہ نے کہا ” گائوں کے لوگ عید کے روز جمع ہوں اور دو رکعت نماز پڑھیں جس طرح امام پڑھتا ہے”اور عطا رحمہ اللہ نے کہا “جب کسی کی نماز فوت ہو جائے تو دو رکعت نماز ادا کر لے” (صحیح بخاری)۔ عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ ابوبکر آئے اور میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں جنگ بعاث کے دن کا شعر گا رہی تھیں۔
Hazrat Muhammed (S.A.W.W)
ان لڑکیوں کا پیشہ گانے کا نہیں تھا، تو ابو بکر نے فرمایا کہ یہ شیطانی باجہ اور رسولۖ اللہ کے گھر میں؟ اور وہ عید کا دن تھا، رسولۖ اللہ نے فرمایا کہ اے ابو بکر ! ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج ہم لوگوں کی عید ہے(صحیح بخاری)۔ صحیح مسلم میں اتنا اضافہ اور ہے کہ آپۖ نے فرمایا کہ: ہر قوم کے لیے عید ہوتی ہے اور یہ ہماری خوشی کا دن ہے۔ درج بالا احادیث سے چند باتیں واضح ہوتی ہیں : i) عید گاہ جانے سے قبل کوئی میٹھی چیز ضرور کھانی چاہیے بہتر ہوگا کہ کھجور یا چھوہارے ہوں۔ ii) عید کے دن عید گاہ جانے اور آنے کے راستے الگ الگ ہونے چاہیں۔اس بنا پر کہ کہ وہاں کے رہنے والے انسان اور جنات اور فرشتے طاعات و نیکیوں پر گواہ بن جائیں، یا اس بنا پر کہ دونوں راستوں کے رہنے والوں کو برکتیں حاصل ہوں، یا اس بناپر کہ دونوں راستوں میں شعائر اسلام کا اظہار ہو، وغیرہ۔ iii) عید کی نماز کے بعد امام تقویٰ اور نیکی کی ترغیب دلائے اور مقتدی اس کو بغور سنیں اور اس پر عمل کرنے کی سعی کریں۔
iv) اگر عید کے دن نماز فوت ہو جائے تو چاہیے کہ دو رکعت نماز پڑھ لی جائے، یہی مناسب طریقہ ہے۔v) عیدین کی نماز میں عورتیں بھی شامل ہوں اور ان کی نماز کا الگ اہتمام کیا جاے نیز عورتیں اُن باتوں کا پاس و لحاظ رکھیں جو اسلام کو مقصود ہیں۔vi ) عید کے دن خوشی کا اظہار ہونا چاہیے اور اس کے لیے جائز طریقوں کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ تمام کام اس لیے اختیار کیے جائیں کہ آج کا دن ہمارا عید کا دن ہے اور عید خوشی کا دن ہے ۔پھر یہی وہ طریقہ ہے جس کو اختیار کرنے سے اللہ اور اس کا رسولۖ بھی خوش ہوتا ہے۔
اجر و مغفرت کا اعلان ِ عام: عید الفطرکا دن مومنین کو پورے ایک ماہ رمضان المبارک کی عبادات کے بعد نصیب ہوتا ہے۔رمضان المبارک میں وہ اپنے آپ کو ظاہر ی اور باطنی طور پر پاک کرتے ہیں اور اللہ کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میںاللہ تعالیٰ ان بندوں سے راضی ہوتا ہے۔صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے اور معد بن اوس انصاری اپنے والد حضرت اویس سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ و سلم نے ارشاد فرمایا :جب عید الفطر کا دن آتا ہے تو خدا کے فرشتے تمام راستوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں اے مسلمانو! رب کے پاس چلو جو بڑا کریم ہے، نیکی اور بھلائی کی راہ بتاتا اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دیتا ہے اور اس پر بہت انعام سے نوازتا ہے، تمہیں اس کی طرف سے روزے رکھنے کا حکم دیا گیا تو تم نے روزے رکھے اور اپنے رب کی اطاعت گزاری کی ۔تمہیں اس کی طرف سے تراویح پڑھنے کا حکم دیا گیا تو تم نے تراویح پڑھی سو اب چلو اپنا انعام لو۔
Eid- Ul-Fitr
جب لوگ عید کی نماز پڑھ لیتے ہیں تو ایک فرشتہ اعلان کرتا ہے۔ اے لوگو! تمہارے رب نے تمہاری بخشش فرمادی پس تم اپنے گھروں کو کامیاب و کامران لوٹو یہ عید کا دن انعام کا دن ہے۔ اس اجر و انعام اور رحمت و مغفرت کے تعلق سے یہ اضافہ بھی ملتا ہے کہ ، جب لوگ عید گاہ میں آجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے: جن مزدور وں نے اپنا پورا کام کیا ہو اس کی مزدوری کیا ہے! فرشتے عرض کرتے ہیں اس کی مزدوری یہ ہے کہ اسے پورا اجر دیا جائے، تب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ جن لوگوں نے روزے رکھے اور نمازیں پڑھیں ان کے عوض میں، میں نے انہیں مغفرت سے نواز دیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بے انتہا کرم ہے کہ وہ ہمیں دنیا میں بھی خوشیاں مہیا کراتا ہے،ان اعمال کے بدلہ جو دنیا میں ہم نے کیے ہیں اور آخرت کا اجر تو اجرِ عظیم ہو گا۔ ہم نے رمضان میں روزے رکھے اور عبادات انجام دیں اس کا نتیجہ ہے کہ اللہ نے بغیر دیر کیے ہی ہمیں ہماری مزدوری کی اجرت دے دی۔ یہی اللہ کی سنت ہے اور اس ہی طریقہ کو مسلمانوں کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔ بے انتہا خوشیاں اور مسرتوں سے بھرپور عید سعید خصوصاً امت مسلمہ اور تمام ہی انسانیت کے علمبرداروں کو مبارک باد کا پیغام پیش کرتی ہے۔
اچھا ہوگا کہ یہ عید انسانوں کے لیے خیر و برکت کا ذریعہ بن جائے اور انسانوں کی انسانوں سے جو دوریاں پیدا ہو رہی ہیں ان میں کمی واقع کر دے، یہی ہماری خواہش اور یہی ہماری دعا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری عبادات کو قبول فرمائے اور دنیا اور آخرت میں متقیوں کا امام بنائے(آمین)۔ اس عید سعید کے موقع پر ہمیں اپنے ان اسلام پسند بھائیوں کو بھی نہیں بھلانا چاہیے جو آج تنگ دستی اور تشدد کا شکار ہیں۔ ان میں بطور خاص مصر و شام کے مظلوم مسلمان ہیں تو وہیں فلسطین، عراق، افغانستان، بنگلہ دیش اور یگر وہ ممالک جہاں مسلمانوں پر صرف اس بنا پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، جو اپنی بقا اور وجود کی جدو جہد کر رہے ہیں یا اسلامی تشخص کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کا حامی و مدد گار ہواور ان کو دنیا ہی میں وہ کامیابی عطا کر دے جس کے بعد ان کا ہر غم ہلکا ہوجائے اور چہار سو امن و امان اور سکون میسر آجائے۔
ساتھ ہی ملت اسلامیہ کے وہ تمام لوگ جو کہیں بھی اور کسی بھی ملک میں اللہ کے دین کے قیام کی جدوجہد میں مصروفِ عمل ہیں اور باطل قوتیں ان کی سرکوبی میں لگی ہوئی ہیں، ایسے تمام لوگوں کے لیے بھی ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی سعی و جہد کو قبول فرمائے ، ان کے درجات دنیا و آخرت میں بلند کردے اور وہ فتح نصیب کرے جس کا وعدہ اُس نے اپنے نیک بندوں سے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ وقت جلد آئے جب کہ اسلام کو غلبہ عطا ہو اور اللہ کی زمین پر اللہ کی کبریائی بیان کی جائے۔ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحم۔