مدینہ طیبہ کے بعد اسلام کے نام پر بننے والی دوسری ریاست پاکستان ہے۔ بانیان پاکستان نے تحریک آزادی کو خالص اسلام کے نام پر چلایا وہ یہ کہتے تھے کہ ہندوستان سے انگریز کے چلے جانے کے بعد متعصب ہندوئوں کی موجودگی میں مسلمانوں کو آزادانہ حقوق نہیں مل سکتے۔ بہرحال مخلصانہ جدوجہد کی بدولت ملک پاکستان معرض وجود میں آ گیا۔ مگر افسوس کہ پاکستان کو دیانت دار اور مخلص قیادت میسر نہ آسکی جس کی بدولت ملک پاک اسلامی فلاحی ریاست بننے کی بجائے یہاں اسلام کی اساسی تعلیمات کو مجروح کیا جاتا رہا۔ دین اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرنا اور عمل سے خارج کردینا اس ملک کے قائدین کا فیشن بن گیا۔ امر واقعہ پر بات کرنے کے لیے تو تفصیلی کتب تحریر کی جا سکتی ہیں۔ آج کی تحریر میں دین اسلام کے ایک اہم مسئلہ جس کا ہمارے ہاں غلط استعمال کیا جاتاہے اس کو ذکر کرتا ہوں۔
اسلام میں معاشرے میں موجود تفریق و امتیاز کو ختم کرنے کے لیے دولت کو استعمال کرنے سے متعلق احکامات صادر فرمائے۔ ہر معاشرے میں امیر و متوسط اور غریب درجہ کے لوگ موجود ہوتے ہیں بسا اوقات ایسا لمحہ بھی آجاتاہے کہ غریب طبقہ کے لوگ نان و نفقہ سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔اس سلسلہ میں اپنے نادار و مفلوک الحال بھائیوں کی مدد کے لیے اپنے رزق حلال میں سے زکواة،صدقات ،عطیات نکالینے کی ترغیب دی گئی اور اس کے بدلہ اور اجر کو اللہ کے ہاں محفوظ ہونے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس امر پر مسلمان دینی جذبہ کے ساتھ عمل کرتے ہیں۔ مگر اصل پریشانی اور مسئلہ یہ بن چکا ہے کہ اسلامی فلاحی عملی ریاست نہ ہونے کے باعث زکواة، صدقات و عطیات جمع کرنے والے بے شماراین جی اوز، ویلفئیر ٹرسٹ اور دینی ادارے معرض وجود میں آچکے ہیں۔
میرے مشاہدے میں ہے کہ ان میں سے اکثر ادارے زکواة، صدقات اور عطیات کا غلط استعمال کرتے ہیں اور مستحقین تک ان کی منتقلی میں غفلت و کاہلی سے کام لیتے ہیں یاپھر اقرباپروری، مسالک پرستی،سفارش سے کام لیا جاتاہے۔ ان اداروں میں سے میں ایک ادارے کے ساتھ مجھے رجوع کرنے کا موقع میسر آیا۔ جس کی تفصیل مختصراً حسب ذیل ہے۔انسان کے حالات و واقعات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ اسی طرح مشکل حالات کا سامنا مجھے بھی کرنا پڑا۔ میں چونکہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا طالب علم ہوں۔ 2011 کے وسط میں مالی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور اس وقت تعلیمی سلسلہ کو منقطع کرنے کے بارے میں سوچ و بچار کر رہا تھا کہ ایسے میں میری انجمن فیض الاسلام میں کام کرنے والے پروفیسر نیاز عرفان صاحب سے ملاقات ہوئی دوران گفتگو اپنے ارادہ سے ان کو مطلع کیا تو انہوں نے مجھے تعلیم کے سلسلہ کو جاری رکھنے کی ہدایت کی اور انہوں نے بتایا کہ اردو ڈائجیسٹ کا ایک ادارہ کارووان علم فائونڈیشن کے نام سے کام کر رہا ہے۔
آپ ان سے تعلیمی اخراجات سے متعلق رجوع کریں امید ہے کہ وہ آپ کے مسئلہ کو حل کر سکتے ہیں۔ میں نے کاروان علم فائونڈیشن کے نام تفصیلی خط لکھا کہ میرے تعلیمی اخراجات اب تک کیسے چل رہے تھے اور اب کن مسائل کا مجھے سامنا ہے۔ بذریعہ ٹیلی فون مجھے ہدایات دیں گئی کہ اپنی تعلیمی اسناد وغیرہ ارسال کریں اس کے جواب میں مجھے 2011 – 12 20- کو اس ادارے کی جانب سے ایک فارم موصول ہوا اور جس کے ساتھ ایک ہدایت نامہ بھی موجود تھا ۔میں نے جنوری 2012 میں اپنے فارم مکمل کرکے بھیج دیا اگر چہ ایک آمدنی کی تفصیلات حاصل کرنے کے لیے میں والد صاحب کو ایک دوست کے ذریعہ بمشکل آمدہ کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس کے بعد دو سے تین بار میں نے ادارے میں رابطہ کر کے معلوم کیا کہ میری ڈاک موصول ہو گئی؟ جس پر بلآخر تنگ آکر مجھے کہا گیا کہ ہم آپ سے خود رابطہ کریں گے۔ جون 2013 کے آخر میں مجھے کاروان علم فائونڈیشن کی جانب سے ایک موبائل پر مسج موصول ہوا کہ آپ کو ہم خط ارسال کر رہے ہیں۔
Education
اس کے مطابق دس روز کے اندر اپنی مطلوبہ معلومات فراہم کریں۔ جس پر میں نے دوبارہ رابطہ کیا تو مجھے کہا گیا کہ آپ پہلے سے مالی اعانت حاصل کر رہے ہیں میں نے کہا کہ نہیں تو اس پر ان ہوں نے جواب دیا کہ وہ میسج عام ہے جو تمام طلبہ کو ارسال کر دیا گیا ہے جو مالی اعانت حاصل کر رہے ہیں اور ابھی جن کو جاری کرنی ہے ان کو بھی مگر آپ کو کوئی خط ارسال نہیں کیا جائے گا۔ جس کے بعد میں نے اپنے ڈاک ایڈریس کی تبدیلی سے متعلق خط ارسال کیا ۔کچھ دن وقفے کے بعد مجھے ای میل اور میسج دوبارہ موصول ہوا کہ آپ کی معلومات نامکمل ہیں آپ سات روز کے اندر معلومات تحریراًارسال کریں۔جس پر میں نے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ آپ کے شناختی کارڈ کی کاپی اور والد صاحب کی آمدن بارے تفصیلات ارسال نہیں کیں۔جس پر میں نے بتایا کہ میں نے یہ سب کچھ آپ کو فارم کے ساتھ جنوری 2012 ارسال کر چکا ہوں۔ وہاں سے جواب ملا کہ ہمیں نہیں ملے۔
میں نے عرض کیا کہ اب میں والد صاحب کی آمدنی کی نئی تفصیلات تو نہیں بتا سکتا وہی پرانی سلپ میرے پاس موجود ہے وہ ارسال کر سکتا ہوں (کیوں کہ سابقہ تفصیلات بھی بذریعہ دوست بمشکل والد صاحب کو اعتماد میں لے کر حاصل کی تھیں) جس پر مجھے دوسرے دن جواب ملا کہ آپ کے کیس کو بند کردیا گیا ہے۔ یہ اعتراض لگا دیا گیا ہے کہ کہ کیا وجہ ہے کہ آپ والد صاحب کی آمدنی کی نئی تفصیلات کیوں فراہم نہیں کر سکتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی طالب علم مسائل کا ستایا ہوا نہ ہوتو وہ کسی ادارے سے تعلیمی اخراجات میں اعانت کی اپیل کیونگر کرئے گا؟ کوئی مستحق جب آپ سے 2011 میں اعانت کی درخواست کرتا ہے تو اس کی درخواست کو بجا دفتری خانہ پر یوں میں کیوں الجھا دیا جاتا ہے؟ اور جب ڈیڑھ سال بعد آپ کو ہوش آیا دوبارہ رابطہ کرتے ہیں تو بھی مختلف حیلوں اور بہانوں میں الجھا کر طلبہ کا استحصال کیوں کرتے ہیں؟ مجھے تو ایک استاد محترم کی شفقت سے اس موقع پر فیس مل گئی اور میں اپنے تعلیمی سلسلہ کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گیا۔
مگر خدا نہ کرئے کوئی سبب نہ بنتا تو میں کیا تعلیم کو نامکمل چھوڑ بیٹھتا تو اس کا ذمہ دار کون کون بنتا؟؟؟ اسی طرح بیت المال اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی طلبہ کے تعلیمی اخراجات میں اعانت کے سلسلہ میں بھی رقوم مختص کی جاتی ہے جو کہ اکثر اقربا پروری، سفارش، جھوٹ اور غلط بیانی کرنے والوں کو فراہم کی جاتی ہیں ۔اس امر کی بین مثال بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر اور ریکٹر کے فنڈمیں سے ایک ایسے طالب علم کی اعانت کی گئی ہے جو کسی طور پر بھی اس کا استحقاق نہیں رکھتا مگر اس کے پاس بڑی سفارش تھی جس کے سبب اس کے مکمل تعلیمی اخراجات یونیورسٹی کے مستحقین کے فنڈ میں سے ادا کیے جارہے ہیں ۔جبکہ میں ایسے کئی طلبہ کو جانتا ہوں جو مستحق ہیں ان کے پاس سفارش نہ ہونے پر ان کو ٹال دیاجاتا ہے یا پھر لیت و لعل سے کام لینے کے لیے دفتری خانہ پریوں میں الجھا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کی صورتحال بیت المال کی بھی ہے وہاں پر بھی اقربا پروری اور سفارش کی بنیادوں پر تعاون کیا جاتا ہے۔
ارباب حکومت کے زمام اقتدارافراد کی خدمت میں عرض ہے کہ معلوم کریں کہ بیت المال، کاروان علم فائونڈیشن جیسے تعلیم کے نام پر کام کرنے والے اکثر ادارے اور این جی اوز طلبہ کے مالی اعانت کے بڑے بڑے دعوے کرکے لوگوں سے اخبارات میں اشتہارات شائع کروا کر امداد و تعاون کی اپیلیں کرتے ہیں۔ زکواة، صدقات، عطیات جو طلبہ کے نام پر حاصل کیے جاتے ہیں ان کا مصرف معلوم کیا جانا چاہیے۔اس امر کو ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے یہ ویلفئیر ادارئے کن بنیادوں پر اور کیسے لوگوں کی مالی اعانت کر رہے ہیں۔اس امر میں یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ یہ ادارئے کہتے ہیں کہ ہم اس امانت کو درست ہاتھوں میں منتقل کرنے کے لیے مکمل چھان بین کرتے ہیں۔ جو فرد مالی اعانت کی اپیل کر رہا ہے تو وہ مستحق ہے یا نہیں؟ اس کا خاندانی پس منظر کیا ہے؟ تعلیمی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہیں ؟ مگر ان اداروں کو چاہیے کہ وہ تعلیمی کارکردگی کے ساتھ ساتھ یہ بھی مکمل جائزہ کہ آیا وہ مستحق بھی ہے کہ نہیں؟ کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ خاندانی اعتبار سے مضبوط ہوں۔
ان کو صرف تعلیمی کارکردگی کی بنیاد پر مالی اعانت فراہم کی جارہی ہوجبکہ غریب و نادار طالب علم تعلیمی اخراجات کو پرانے کرنے کی وجہ سے تعلیم کے میدان میں اچھی کارکردگی نہ دکھا سکتا ہو؟وہ دن اور رات میں اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے ملازمت کرتا ہو؟ جس کے سبب وہ تعلیم کو مکمل وقت نہ دئے پاتا ہو؟ان امور کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ ان تمام این جی اوز اور ویلفئیر ٹرسٹوں کا مکمل آڈٹ اور احتساب کرئے۔ کیوں کہ زکواة، صدقات اور عطیات کے حقیقی مستحقین کو نہ دینا یہ جرم عظیم ہے۔ نوٹ : میں نے اپنے ساتھ پیش آمدہ واقعہ کوخالص نیک نیتی اور دکھ کے اظہار کے ساتھ ضبط تحریر کیا ہے کہ آئندہ کوئی طالب علم میری طرح دفتری الجھنوں میں الجھ کر اپنی تعلیم سے کنارہ کش نہ ہوبیٹھا تو ملک و ملت ایک اپنے روشن مستقبل سے محروم ہو ہو جائے گی اگر ایسا ہو گیا تو اس یہ گناہ عظیم ہو گا جس کی جوابدہی بہرحال عنداللہ دینی ہو گی۔ میرے پیش نظر ادارہ کاروان علم فائونڈیشن کو بدنام کرنا ہر گز مقصود و مطلوب نہیں ہے۔ بس اپنے پیغام کو حکمرانوں تک پہنچانے کا فرض پورا کر دیا۔
Atiq-Ur-Rahman
تحریر : عتیق الرحمن mob:03135265617 e-mail:deskibaat1987@gmail.com