بیشک رمضان المبارک بڑی بزرگی والا اور اللہ تعالی کی بیشمار رحمتوں، برکتوں، عظمتوں اور تلاوت قرآن پاک والا مہینہ ہے جس کے اول تا آخر ایام میں ربِ ذالجلال نے بڑی حکمتیں رکھی ہیں جس کا پہلا عشرہ رحمت دوسرا عشرہ مغفرت اور اِس ماہِ مبارکہ کے تیسرے اور سب سے آخری عشرے میں جہنم سے آزادی کی نوید سنائی گئی ہے یوں اِن تمام خصوصیات کے حامل رمضان المبارک کا سارا مہینہ ہی خیر و برکت سے لبریز ہے اور اِس کے شام و سحر میں رب کائنات اللہ رب العزت اپنی بیشمار انوار و تجلیات آسمان سے زمین کی جانب نزول فرماتاہے ویسے تو اِس ماہِ مبارکہ کی ہر گھڑی اور ہر ساعت اپنے اندر اہل ایمان کے لئے بیشمار برکتیں لیئے ہوئے ہوتی ہیں۔
مگر اِس ماہِ مبارکہ کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تو اہل ایمان پر رحمتوں برکتوں اور عظمتوں کا نزول اپنے عروج کو پہنچ چکا ہوتاہے اِس لئے کہ اِس ماہِ مبارکہ آخری عشرے کی اِن پاک پانچ اور طاق راتوں میں سے ایک عظیم رات جوشبِ قدر کہلاتی ہے اِن تاریخوں میں آتی ہے۔ اور اِسی رات میںقرآن کریم لوحِ محفوظ سے بیت المعمور پر اتارا گیاجس کی تعریف میں اللہ تعالی نے خود ہی قرآن کریم فرقانِ حمید میں پوری ایک سورت القدر نازل فرمائی اور اللہ تعالی نے ارشاد فرمادیاہے کہ بے شک ہم نے قرآن کریم کو شبِ قدر میں اتاراہے، اور تم نے کیا جانا ہے کہ شبِ قدر کیا ہے۔
لیلتہ القدر ہزار مہینوں سے بہترہے، اِس شب میںفرشتے اور جبریل امین اپنے پروردگار کے حکم سے ہر کام کے لئے زمین پر اترتے ہیں ،شبِ قدر کی شب سلامتی ہی سلامتی ہے صبح چمکنے تک قرآن کریم کی اِس سورت میں اللہ تعالی نے فرمایاہے کہ ہم نے قرآن کریم کو ایک رات میں اتاراہے اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے اِسے رمضان کے مہینے میں اتارا ہے اور تاریخ اور واقعات یہ بتاتے ہیںکہ حضرت جبریل علیہ السلام 23 سال کی مدت میں اِسے لاتے رہے اِس میں تطبیق یوں ہوسکتی ہے کہ لیلتہ القدر کو جو ماہِ رمضان المبارک میں ہے اللہ تعالی نے قرآن کریم فرقان حمید کو لوحِ محفوظ سے بیت المعمور( آسمان دنیا پر ایک جگہ ہے۔
Muhammad ( s .a .w)
) میں اتارا اورپھر وہاںسے ہی حضرت جبریل علیہ السلام حضور پرنور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں 23 سال تک لاتے رہے۔ کیوں کہ قرآن کریم اِسی ماہِ رمضان المبارک میں ہی اتاراگیا ہے اِسی لئے مسلمانوں پر لازم ہے کہ اِس بابرکت مہینہ میں قرآن کریم کی تلاوت کثرت سے کی جائے اور وہ اِس لئے بھی کہ اِس کلام الہی کی تلاوت سے ہی قلب کو سکون حاصل ہوتا ہے اور روح کو تسلی نصیب ہوتی ہے۔ جس کے بارے میں قرآن کریم کا ارشاد ہے دلوں کو اطمینان اللہ کے ذکر سے ہی ہوتا ہے حضرت نعمان سے روایت ہے کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔
کہمیری امت کی سب سے بڑی عبادت قرآن کریم کی تلاوت ہیاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ یہ مقدس رات اللہ تعالی نے فقط میری امت کو عطا فرمائی ہے سابقہ امتوں میں سے یہ شرف کسی کو نہیں ملا جس سے متعلق حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا لیلتہ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو حضر ت عائشہ صدیقہ سے ایک اور روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اِس مبارک رات کو رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں 21 رمضان المبارک سے 29 رمضان المبارک تک کے درمیان تلاش کرو۔
کیوں کہ اِس رات کی عبادت ہزار مہینوں سے افضل ہیاِس شب سے ہی متعلق حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک اور ارشاد گرامی ہے کہ جس شخص نے شب قدر میں اجروثواب کی امید سے عبادت کی، اِس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اِسی طرح حضرت ابوہریرہ سے ایک روایت ہے کہ رسول عربیۖ نے ارشاد فرمایا جو شخص شبِ قدر میں عبادت کے لئے کھڑا رہا اِس کے تمام گناہ معاف ہوگئے۔ امام زہری فرماتے ہیں کہ قدر کے معنی مرتبے کے ہیں چوں کہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میںشرف اور مرتبے کے لحاظ سے بلند ترہے اِس لئے اِسے لیلتہ القدر کہا جاتا ہے۔ تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے جمہور اِس پر متفق ہیں۔
کہ رمضان المبارک کی 27 ویں شب ہی شبِ قدر ہے جو کہ شرف وبرکت والی رات ہے اور اِس شب میں اعمالِ صالحہ مقبول ہوتے ہیں اور بارگاہِ رب ذوالجلال میں اِس کی بڑی قدر ہے اِس لئے اِسے شب قدر کہتے ہیں۔ یہ امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالی کا کرمِ خاص ہے کہ اِس نے اپنے پیارے حبیب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو ایک ایسی رات شبِ قدر عطا فرمائی ہے کہ جس کی ایک رات کی عبادت 83 سال چار ماہ سے بھی بڑھ کر ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے لیلتہ القدر کو شب بیداری کی۔
Allah
اِس رات میںدو رکعت نماز پڑھی اور اللہ تعالی کے حضور گڑ گڑا کر اپنی بخشش کی دعاکی تو اللہ تبارک تعالی اِس کے گناہ معاف فرمادے گا، گویا کہ اِس شخص نے اللہ تعالی کے دریائے رحمت میں غوطہ لگالیا۔جبرئیل علیہ السلام اِسے اپنا پر لگائیں گے اور وہ جنت میں ضرور داخل ہوگا۔ مفسرین تحریر کرتے ہیں کہ شب قدر کی اہمیت کا اندازہ اِس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اِس شب میں عبادت کرنے والے انسان کو جس وقت روح الامین آکر سلام کرتے اور اِس سے مصافحہ کرتے ہیں تو اِس پر خشیت الہی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اوراِس کے بدن کا رواں رواں کھڑا ہو جاتا ہے اور اِس کی آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں۔
بس تو پھرآج یہاں ضرورت اِس امر کی ہے کہ امت مسلمہ اِس رات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اِس کے تمام تقاضوں کو پوراکرے اور اِس شب میں چوں کہ قرآن مجید فرقان حمید کا نزول ہوا ہے اِس لئے بغیر کسی حیل و حجت کے اِس رات میں دنیاوی خرافات اور شیطانی وسوسوں اور چکروں میں پڑنے کے بجائے اِس مقدس شب کو کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کی جائے کیوں کہ ویسے تو پورے رمضان ہی قرآن کی تلاوت کا اپنا اجر وثواب ہے مگر اِس شب کو خصوصیت کے ساتھ تلاوت قرآن کرنا، قرآن سننااور اِس کا اہتمام کرنے کا بھی اپنا علیحدہ ہی اجر وثواب ہے اور اِس شب میں نوافل، استغفار اور درود و سلام کی کثرت بھی اِس شب کی عبادات میں شامل ہیں۔
یہ بھی خصوصی درجہ رکھتی ہیں۔یوں تو یہ خوش نصیبی صرف امت محمدیۖ کو ہی حاصل ہے کہ آج کی اِس شب، شب قدر کی عبادت میں کھڑے انسان پر ربِ ذوالجلال کی خاص عنایتوں کا نزول ہو رہا ہوتا ہے اور وہ اِن ہی رحمتوں، برکتوں اور عنایتوں کو اپنے دامن میں سمیٹنے کے لئے اِس شب کا پورے سال بھربڑی بے چینی اور بیتابی سے انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ تاکہ اپنے رب ذوالجلال کی اِس شب، شبِ قدر کی بابرکت ساعتوں سے فیضاب ہوسکے جو آج کی شب اللہ تعالی اپنے بندوں پر آسمان سے جھم جھم برسا رہا ہے۔ اعظم عظیم اعظم naa.asn@gmail.com