حکومت نے عام آدمی کی مشکلات کو سمجھتے ہوئے نہایت سنجیدگی کے ساتھ اقدامات کرتے ہوئے بجلی، گیس، اشیاء خوردنوش کے ساتھ ساتھ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ حکومت نے بجٹ 2013 ء میں جی ایس ٹی میں اضافے کے بعد تقریبا آٹا، گھی، چینی، دودھ، صابن، نمک، تیل سمیت تمام اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کے بعد دو تین بار بجلی کے جھٹکے لگائے اور اب پیٹرولیم منصوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر کے عام آدمی جو پہلے ہی مہنگائی اوربے روزگاری کے ہاتھوں خودکشیاں کر رہا ہے کی مشکلات کو مزید آسان کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ پیٹرول 2 روپے 73 پیسے ،مٹی کا تیل 4 روپے 99 پیسے، لائٹ ڈیزل 3 روپے 95 پیسے جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت تین روپے فی لیٹر بڑھا کر حکومت یہ سوچ رہی کے عوام کو مزید کیا عیدی دی جائے۔ اس بار عید کے موقع پر نئے کپڑے تو صرف امرا کے بچوں کو نصیب ہوں گے جن کے نزدیک یہ کوئی بڑی بات نہیں۔
ہو سکتا ہے حکومت عام آدمی اور اُس کے خاندان کے لوگوں کے تن سے پرانے کپڑے اُتروا کر قدرتی لباس میں عید منانے کا خوبصورت تحفہ فراہم کرنے کوشش کرے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت نے الیکشن سے پہلے کشکول توڑ کر آئی ایم ایف کی غلامی سے آزاد ہونے کے دعوے کئے تھے جن پر عوام نے بھرپور اعتماد کرتے ہوئے ن لیگ کو بھاری اکثریت سے کامیاب کروایا۔ لیکن افسوس کہ ن لیگ کی حکومت نے کشکول توڑنے کی بجائے مزید بڑا کرکے آئی ایم ایف کی غلامی کو مزید طول دے دیا ہے۔ حکومت کے اب تک کے اقدامات سے لگتا ہے کہ ن لیگی قیادت کو عام آدمی کی مشکلات کا علم تو ہے لیکن حل میں کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ سہری وافطاری کے اوقات میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہ کرنے کے دعوے بھی الیکشن مہم کی طرح صرف سیاسی بیانات ہی نکلے۔
Load Shedding
سہر و افطار کے اوقات میں بجلی و گیس کی عدم دستیابی آئی ایم ایف کی غلامی کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔کرکٹ میچ کے دوران بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں کی جاتی لیکن نماز جمعہ کے وقت ضرور کی جاتی ہے۔ بجلی آج ہماری اہم ترین ضرورت ہے لیکن انتہائی مہنگی ہونے کے باوجود عدم دستیابی نے پاکستانی عوام کا جینا مشکل کر دیا ہے۔ روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی، بد امنی، بے روز گاری، وسائل کم ہونے کی وجہ سے صحت و تعلیم کے حصول سے دوری، بجلی و گیس اور سی این جی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے چاروں طرف پھیلی بے روزگاری عام آدمی کو روزانہ خودکشی کا مشورہ دیتی ہے، بے روز گاری، مہنگائی، دہشتگردی اور لاقانونیت نے میرے وطن میں ایسے ڈیرے ڈالے ہیں کہ غریب تو مہنگائی کا رونا پہلے بھی روتا ہی تھا لیکن اب امیر آدمی بھی اس کی زد میں ا چکا ہے۔
مہنگائی، دہشتگردی، لوڈشیڈنگ، بے روز گاری، لاقانونیت اور ناانصافی کی چکی میں پسی قوم کو اس سوچ نے پریشان کر رکھا ہے کہ آج اتنی مہنگائی ہے تو کل کیا بنے گا۔ آج بجلی و گیس نہیں ملتے تو کل کیا ہو گا؟ لیکن حکمران ہیں کہ مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ بے روز گاری اور دہشتگردی کے خاتمے پر توجہ دینے کی بجائے آئے دن مہنگائی کا نیا بم گرا رہے ہیں۔ اور بیان جاری کرتے ہیں کہ ہم عوام دوست، جمہوری حکمران ہیں۔ صرف بیانات سے کام چلا کر اپنے آپ کو بری ذمہ کر رہے۔ بندہ پوچھے اخبار میں چھپے بیان سے کسی بے روز گار کو روزگار میسر آ سکتا ہے؟؟ کسی بھوکے کو پیٹ پھر کھانا مل سکتا ہے؟؟ کسی بیمار کو میڈیکل کی سہولت میسر آسکتی ہے؟؟ کسی ماں کو اس کا بیٹا جسے ٹار گٹ کلنگ کھا گئی ہو واپس مل سکتا ہے؟ عام آدمی اس لیے زیادہ پریشان ہے کہ آٹا بہت مہنگا ہو گیا جبکہ حکمران اپنی عیاشیوں میں مست ہیں۔ دین اسلام، عام آدمی اور پاکستان کے بھلے کی بات توہم سب کرتے ہیں عام آدمی اور پاکستان کے حالات پر تجزیے بھی ہوتے ہیں۔
تبصرے بھی بہت کیے جاتے ہیں پاکستان کے گلی کوچوں سے لے کر اسمبلی ہال اور خاص طور پر ٹی وی چینلز پر ہر وقت عام آدمی کی مشکلات مہنگائی لوڈشیڈنگ بے روز گاری پاکستان کی بگڑتی ہو ئی معاشی واقتصادی حالت اور سب سے بڑھ کر دین اسلام کے بارے میں ہم لوگ اس قدر سنجیدہ ہوتے ہیں کے دیکھنے اور سننے والے کبھی سوچ ہی نہیں پاتے کے ہم یہ ساری باتیں کیمرے کے لیے یا سامنے کھڑے لوگو ں کو بے وقوف بنانے کے لیے کر تے ہیں یہ ساری باتیں ایسے ہی ہیں جیسے ایک جوکر اپنا شو شروع ہونے سے پہلے میک اپ کرے اور شو ختم ہوتے ہی وہ سارا میک اپ دھو کر اپنے اصل روپ میں آجائے ٹھیک اسی طرح ہمارے ملک کے جمہوری جوکر اپنی سیاست کو چار چاند لگانے کے لیے عام آدمی کے حالات زندگی پر ایسا چہرہ اور لب ولہجہ بنا کر بات کرتے ہیں جیسے وہ واقع ہی غریب کی مجبوریاں جانتے ہیں اور اُن کے حل کے لئے اس قدر سنجیدہ ہیں ساری ساری رات اسی فکر میں جاگ کر گزار دیتے ہیں کہ عام آدمی کی مشکلات کو کس طرح حل کیا جائے۔