پنجاب کی عوام کو مبارک ہو پنجاب کے نئے گورنر نے حلف اٹھا لیا۔ سب سے بڑی خوشی کی بات یہ ہے کہ پنجاب کی عوام نے دیگر صوبوں کی عوام پر سبقت حاصل کرلی ہے۔ کیونکہ ہم لوگ باہر کی چیزیں تو پسند کرتے ہیں مگر سیاست میں بھی پنجاب کے لیے میاں نواز شریف نے جو گورنر دیا ہے وہ میڈا ن برطانیہ ہے۔ اس طرح پنجاب کی عوام کا سر فخر سے بلند کر دیا کہ وہ عام استعمال کی چیز تو امپورٹ خریدتے تھے اور اب انہیں گورنر بھی امپورٹ مل گیا۔ ویسے تو ہم لوگ پہلے ہی میڈان پاکستان (made in pakistan) کو کم اور باہر کے ممالک کی اشیا ء کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ امپورٹ مال کی پاکستان میں بہت زیادہ قدر ہے۔ اگر ہم نے کپڑایا جوتا بھی لینا ہو تو وہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ باہر کا تیار کردہ ہو۔حتی کہ عام گھر میں پہننے کے لیے سلیپر بھی لینے ہوتو وہ بھی چائنہ چپل خریدتے ہیں۔ ویسے تو پاکستان میں میڈ ان چائنہ ہر چیز میں چھائی ہوئی ہے۔ جوتی، کپڑا اور خاص طور پر موبائل کے میدان میں۔
ہر دوسرے شخص کے پاس چائنہ کا موبائل ہوتا ہے۔ مگر سیاست کے میدان میں میڈان چائنہ کے بجائے پہلی بار میڈان برطانیہ کو متعارف کرایا گیا ہے۔ (ویسے ہماری سیاست میں زیادہ عمل دخل برطانیہ کا ہی ہوتا ہے پاکستان کی تقریباً انیس کروڑ کے لگ بھگ آبادی ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے یا خوش قسمتی کہ ہمارے اوپر باہر سے لوگ لا کر مسلط کیے جاتے ہیں۔ پہلے تو پاکستان کے وزیراعظم ہی امپورٹ ہو رہے تھے اور اب گورنر کی باری آ گئی۔ ہمیں ڈر ہے کہ آہستہ آہستہ ہمارے اوپر ہر میدان میں باہر سے لوگ لا کر مسلط نہ کر دیے جائیں۔ پاکستان کے حکمران صرف حکومت کرنے کے لیے بیرون ممالک سے آ جایا کریں گے اور پھر جب حکومت ختم ہو گئی واپس اپنے ملک چلے گئے۔ پاکستان تو اس قابل ہے نہیں کہ یہ لوگ اس میں رہائش پذیر رہ سکیں۔ مثلا جیسے اب سننے میں آرہا ہے کہ صدر زرداری اپنی مدت پوری کرنے کے بعد دبئی میں اپنی فیملی کے ساتھ رہیں گے۔
Governor Punjob
شوکت عزیز، معین قریشی جیسے لوگ تو پہلے ہی باہر رہ رہے ہیں۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ کہا یہ لوگ صرف اقتدار کا مزا لوٹنے پاکستان آتے ہیں اور اس کے بعد پھر اپنے پسندیدہ ملک میں رہائش پذیر ہوجاتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اتنی بڑی سیاسی جماعتوں میں جو پاکستان سے الیکشن جیت کراقتدار میں آتی ہیں کیا ان میں کوئی ایک شخص بھی اس قابل نہیں ہوتا جس کو وزیراعظم یا گورنر بنایا جا سکے۔ عوام پاکستان کی اور حکمران بیرون ممالک سے لا کر مسلط کیے جائیں یہ کہاں کا انصاف ہے؟ بیشک ان کے پاس پاکستان کی قومیت ہوگی مگر اس قومیت کا خیال عام دنوں میں کیوں نہیں آیا؟ صرف اقتدار ملتے وقت یہ قومیت کیوں یا د آئی؟ قومیت چھوڑنا اور حاصل کرنا ایسے لوگوں کے لیے کوئی مشکل نہیں کیونکہ ان کو پاکستان لانے والے ہمارے حکمران ہیں اور قومیت دینے والے بھی یہی حکمران ہیں۔
اگر قومیت حاصل کرنے مسئلہ پیش آتا ہے توصرف ہم غریب عوام کو۔ ہمیں تو ایک قومی شناختی کارڈ بنوانے کے لیے کئی دن تک مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور جائز کام کے لیے ناجائز رقوم دینا پڑتی ہے۔ برطانیہ کے چودھری غلام سرورمیں ایسی کونسی خوبی ہے جو اس کے سر پر پنجاب کی گورنری کا ہما بٹھایا جا رہا ہے۔ ان کی پاکستان اور مسلم لیگ ن کیلئے ایسی کونسی خدمات ہیں جن کی بدولت ان کو یہ عہدہ دیا جارہا ہے ؟ ایک نظر چوہدری صاحب کے بیک گراونڈ پر بھی ڈال لیں تو آپ کو سب پتا چل جائے گا۔ پنجاب کے نئے گورنر چوہدری محمد سرور 1976 میں برطانیہ منتقل ہوئے اور میری ہلز کے علاقے میں ایک دکان سے اپنے کاروبار کا آغاز کیا۔ ان کی رہاش گلاسگو میں ایک چھوٹے سے فلیٹ میں تھی۔بعد میں انہوں نے ہول سیل سے اپنے کاروبار کا آغاز کیا اور چند ہی سال میں ایک بڑی ایمپائر میں تبدیل کر دیا۔
مالی طور پر مستحکم ہونے کے بعدانہوں نے برطانیہ کی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا اور 1992 میں لیبر پارٹی کے ایک پلیٹ فارم سے کونسلر بنے۔ 1997 میں برطانیہ میں پہلے پاکستانی نڑاد اور مسلم ممبر پارلیمنٹ بن کر تاریخ رقم کی۔ پنجاب کی آٹھ کروڑ آبادی میں کیا ن لیگ کو کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو پنجاب کا گورنر بننے کے اہل ہو؟ چوہدری سرور نے جمہوریت کی خاطر کیا قربانی دی یا صعوبتیں برداشت کیں ؟ چودھری صاحب تو ان لوگوں میںسے ہیں جو ہر بھاری بھر کم سیاسی شخصیت کی برطانیہ آمد پر خدمت کو فرض سمجھتے ہیں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ جب میاں برادران برطانیہ جاتے ہیں تو چوہدری صاحب ان کی خوب آؤ بھگت کرتے ہوں جس کے عوض آج ان کو یہ معاوضہ دیا گیا ہے۔ اگر یہ معاملہ ہے تو اس صلے میں نواز شریف ان کو اپنی جیب سے انعام اکرام دیتے تو عوام کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ ذاتی خدمت کے اعزاز میں گورنر بنا دینے کے فیصلے کو قوم دل سے قبول نہیں کر رہی ہے۔ پاکستان میں قحط الرجال نہیں ہے کہ گورنر امپورٹ کرنا پڑے۔ پاکستان میں اس عہدے کے معیار پر پورا اترنے والی ایک سے بڑھ کر ایک شخصیت موجود ہے۔ اب جب چوہدری سرور کو گورنر کی کرسی پر بٹھا دیا گیا ہے تو دیکھنا ہے کہ ان کو پاکستان کی سیاست کی کتنی سمجھ بوجھ ہے یا پھر یہاں پر بھی برطانیہ والے قانون نافذ کیے جائیں گے۔ پاکستان کی اور برطانیہ کی سیاست میں بہت فرق ہے مگر اب بال چوہدری صاحب کے کورٹ میں ہے کہ وہ اس کا کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ اب ویسے بھی عوام برداشت کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتی اور اتنی امید ضرور لگا سکتی ہے کہ شاید یہ مسیحا بن کر پنجاب کے عوام کی تقدیر بدل دے اور پنجاب کو بیروزگاری، لوڈشیڈنگ اور دیگرمسائل سے چھٹکارا دلا سکیں۔