اِسے مذاق ہی سمجھئے گا ؟

Poor

Poor

اِسے مذاق ہی سمجھئے گا عنوان اس لئے تحریر ہواکہ غریب اس ملک میں ایک مذاق ہی کی مانند بسیرا کر رہا ہے۔ ہر کوئی ہر سطح پر، ہر معاملے میں، ہروعدے میں، غریب سے مذاق ہی کرتا ہوا پایا جاتا ہے۔ ملک میں اکثر وبیشتر دیکھا گیا ہے کہ ہرسیاسی جماعت خود کو غریب عوام کی ہمدرد اور مسیحا قرار دینے کی کوشش کرتی ہے۔ ہرسیاسی جماعت اور سیاسی رہنما خود کو غریبوں کے کاز کا ایکسپرٹ قرار دیتے ہیں۔ حکومت چاہے کوئی بھی ہواپنی ہراسکیم کو غریبوں کی فلاح وبہبود سے معمور کرتی ہے اس کے باوجود اس ملک سے نہ غریبی ختم ہو رہی ہے اورنہ غریب۔ جس طرح تیزی سے بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہورہا ہےَ

اس کو دیکھتے ہوئے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ نہ غربت ختم ہوگی اور نہ غریب۔ بلکہ اس ملک میں غربت اور غریبوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ ارب پتیوں کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے لیکن غریبوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ ہمیشہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے غریبوں کی فلاح وبہبود کے نعروں حکومتوں کی جانب سے غریبوں کے لئے بے شمارا سکیم کا اجراء اور پھر غریبوں تک اس کے ثمرات کے نہ پہنچنے کے باوجود کروڑوں روپئے اس مدمیں ظاہر کرنا، اس بات کا ثبوت ہے کہ غریبوں کے نام پر جو اسکیمات شروع کی جاتی ہیںَ

پاکستان میں ہربڑے سیٹ پر جاگیردار، وڈیرے اور صنعت کارہی بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ لوگ کب تک ملکی خزانے میں دراڑ ڈالتے رہیں گے مطلب توصاف ہے کہ کب تک یہی لوگ کھاتے رہیں رہیں گے اور غریب عوام ان کی وجہ سے بھوکوں مرتے رہیں گے سیاست میں عوام کی شرکت توہے مگر صرف نعرے لگانے کے لئے، کندھوں پر اُٹھانے کے لئے، پوسٹرز چپکانے کے لئے اور بینرز لگانے کے لئے، ایسے ہی اور دیگر کام ہونگے جہاں پرعوام کی حاضری سیاست میں نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ عوام اقتدار میں کہیں نظر نہیں آتی۔ اب اگر ملک کے غریب عوام چاھیں۔

تواپنے اس احساسِ کمتری کو ختم کرنے کے لئے ان جاگیردار، وڈیرہ، صنعتکار ٹائپ کے شہنشاہوں پھران کے شہزادوں اور شہزادیوں کے سحرسے باہر آنے کے لئے خود اپنے ہی قبیلے (غریب قبیلے) سے کسی غریب کو منتخب کریں تاکہ اس ملک کی اقتدار پر غریبوں کا حق بھی نظر آسکے۔ اصل بات یہ ہے کہ جذبے کے بغیر زندگی میں کوئی اہم کام اور کوئی بڑی قومی خدمت سر انجام نہیں دی جاسکتی کیونکہ جذبے ہی میں وہ قوت پوشیدہ ہے جوانسان میں مشکلات، رکاوٹوں اور مخالفتوں کو روند نے کاحوصلہ پیدا کرتی ہے اورانسان میں لگن، اور ایثار کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔

Sir Syed Ahmed Khan

Sir Syed Ahmed Khan

اس کے بغیرنہ منزل ملتی ہے اورنہ ہی کوئی کامیابی۔ سرسیداحمد خان سے اس معاملے میں روشنی حاصل کرنا ضروری ہوگا۔ بیداری، خودی، منزل کا شعور و آگہی اور عزتِ نفس حاصل کرنا ہو تو کلامِ اقبال کی جانب رجوع کرنا ضروری امر ہوگا۔ اور اگر عظمت دار، اعلیٰ سیاسی حکمتِ عملی اور مستقل مزاجی کا سبق لیناہو تو قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت پر لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ بے حد ضروری ہوگا۔ کیا ابھی یہ وقت نہیں آیاکہ عوام بلکہ غریب عوام بھی ان لیڈران کے بارے میں کچھ جان سکیں۔ یا پھر جانتے بوجھتے اس سے انجان بنے ہوئے ہیں۔ کیا ابھی وقت نہیں آیاکہ نئی قیادت تلاش کی جائے تاکہ اگلے انتخابات کے بعد پاکستان ترقی کے زینے طے کرسکے۔

اب جناب آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ دنیا بھر میں حکمران اپنے عوام کو عید کے پُر مسرت موقع پر اچھے تحائف دیتی ہیں مگر ہمارے یہاں مہنگائی کاتحفہ دیا جاتا ہے۔ بجلی کے ریٹ بڑھا دیئے جاتے ہیں، پیٹرول، ڈیزل کے ریٹ بڑھا دیئے جاتے ہیں۔ غریب لوگ ٹھیک ہی چیختے ہیں کیونکہ حکمران طبقہ ہمیشہ ہی ان کی دُکھتی رگوں کو چھیڑ دیتے ہیں۔ عوام کویہ تو یقین ہے کہ یہاں مہنگائی ختم ہونے والی نہیں مگر حکمرانوں کو یہ اضافہ عید کے بعد تک ٹال دینا چاہیئے تھا تاکہ رمضان المبارک میں ریلیف کا تاثر بھی قائم رہتا اور عید الفطر کی خوشیاں بھی سب کو میسر آجاتیں۔

ویسے بھی کہایہی جاتاہے کہ بیماری کی نوعیت اور شدت کا علم ہوجائے تو علاج آسان ہو جاتا ہے، مگرہمارے یہاں تو گنگا ہی اُلٹی بہتی ہے سو آج بھی اُلٹی ہی بہہ گئی۔ یہاں بیماری کو سمجھنے اور اس کادرست سمت میں علاج کرنے کے بجائے محض رپورٹوں پرہی انحصار کیا جاتا ہے اور یہی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بمیاری کوجڑ سے اُکھاڑ پھینکا جائے گا۔ ارضِ وطن کے معاشی وجود کو ایسی ایسی بیماریاں لاحق ہیں کہ ان میں بلا شک و شبہ بدعنوانی، کرپشن کو سب سے زیادہ موذی مرض کا نام دیا جاسکتا ہے۔ لیکن غربت، مہنگائی اوربے روزگاری جیسے مسائل بھی اپنے آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔

IMF

IMF

بدقسمتی سے گزشتہ کئی برسوں میں اس حوالے سے کسی بھی قسم کا سرکاری اعدادوشمار جاری نہیں کیا گیا۔ یوں غریبی کا پیمانہ ناپنے والے احباب اُسی پرانے اعداد و شمار پرہی اکتفا کرتے ہیں۔ یہاں غربت میں کمی کا دوردور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔جب تک معاشی ترقی کے دَر نہیں کھولے جاتے اور آبادی میں اضافے کو نہ روکا جاتا ہے تو غربت کا عفریت مزید لاکھوں پاکستانی عوام کو نگل لے گا۔جس طرح ہماری معزز حکومتوں کو غریبوں کی حقیقی تعداد کا علم نہیں ہوتا اسی طرح حکومت یہ بھی نہیں جانتی کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح کیا ہے۔ مگر ہماری حکومت کو قرضہ دینے والا ادارہ آئی ایم ایف ہم سے کہیں زیادہ یہ جانتاہے۔

کہ پاکستان میں بے روزگاری بہت زیادہ شدید اور خطرناک حد تک ہوچکی ہے۔
تجزیہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ تیسری دنیا کے باشندوں کا عرصۂ دراز سے یہی مسئلہ رہاہے کہ ان کی تمام زندگی دو وقت کی روٹی کے حصول کی تگ و دو میں ہی صرف ہو جاتی ہے اور وہ تمام عمر گھر کا چولہا کیسے جلانا ہے کے سوال کے جواب کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں مگرا نہیں ان کی زندگی میں اس سوال کا مستقل جواب نہیں مل پاتاہے۔ ہندوستان، نیپال، بنگلہ دیش، پاکستان ،سری لنکا اور ایسے ہی نجانے کتنے ممالک ہیں جن کے باشندے انہی مسائل کے بھنور میں پھنسے ہیں اور اپنی زندگی کے لمحات گن گن کر بسر کر رہے ہیں۔

یہ تجزیہ کسی ایک ملک میں رہنے والے ایک شخص کے بارے میں نہیں ہے بلکہ تیسری دنیا کے اَن گنت باشندے اور خاص کر پاکستانی عوام غربت کے اس منحوس چکر میں مبتلا ہو کر اپنی زندگی کی تمام خوشیاں قربان کر رہے ہیں اور ہمارے وطنِ عزیز کی صورتحال اس چکر کی وجہ سے اس قدر دگر گوں ہو چکی ہے کہ ہرطرف مانگنے والے ہاتھوں کا تانتا بندھا دیکھا جاسکتا ہے۔ خدا ہم سب کو اس منحوس غریبی کے چکرسے محفوظ فرمادے۔ اور خدا کرے کہ ہمارا یہ خطہ بھی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے۔ تاکہ یہاں کے عوام بھی غربت کے گھونسلوں سے نکل کر ترقی کی صبح دیکھ سکیں۔ آمین

تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی