مظفرکی دلخراش چیخیں۔ کیا” مظفر “ کو مظفر کی غفلت نے ڈبودیا…؟
” خداکے واسطے میرے بیٹے کو بچالو…بچالو، بچالو….میری نشانی میرے بیٹے کو بچالو… جلدی کرو،ہم ڈوب رہے ہیں ، کہیں ایسانہ ہوجائے کہ ہم مرجائیں اور میرے ساتھ میرایہ ڈیڑہ سال کا میرالاڈلابیٹاعبیرخان بھی مرجائے…“ یہ وہ دلخراش جملے اور چیخیں تھیں جو مظفرسلیم خاں نے آخری باراپنی زبان سے اداکئے تھے ، وہ مظفر سلیم جس کی گاڑی گزشتہ ہفتے ہونے والی بارش کے دوران گلبرک کے بی آرسوسائٹی کے نالے میں گرگئی تھی اور پھر چندہی منٹوں میں برساتی نالے کے شورمچاتے آنے والے ریلے میں مظفرسلیم کی آواز ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گھو گئی اور گاڑی دیکھتے ہی دیکھتے برساتی نالے میں ڈوب گئی جب یہ دلخراش منظر اِس کی مدد کے لئے اِدھر اِدھر دوڑ لگاتے نوجوانوں اور وہاں موجود اِس کی مددکو آگے بڑھتے ہر عمر کے لوگوں نے دیکھاتو اِن کی ہمت بھی جواب دے گئی اور سب مایوس ہوکر کفِ افسوس ملتے رہ گئے اور اپنی ناچارگی اور بے کسی پر حکمرانوں سے شکوہ کرتے رہ گئے کہ کاش ہمارے حکمرانوں نے ایسی کسی ہنگامی صورتِ حال سے دوچار افراد کی بر وقت مددفراہم کرنے کے لئے ایسے اقدامات کئے ہوتے تو آج مظفر، اِس کی بیوی اور اِس کا ڈیڑھ سالہ بیٹاعیبر خاں یوں آناََ فاناََ موت کی آغوش میں نہیں چلاجاتے… ! اگرچہ جن لوگوں نے مظفر کو ڈوبتے دیکھااور اِس کے دلخراش جملے سُنے اِنہوں نے مظفر اور اِس کے بیوی اور بچے کو بچانے اور اِنہیں فوری مددفراہم کرنے کے لئے رسیوں اور چادروں اور ڈوپٹوں کو جوڑجوڑ کر کئی رسیوں کا انتظام کیا مگر شائد خداکو یہی منظور تھا، کسی کی کوئی ترکیب کارگرثابت نہ ہوسکی اور مظفر اپنی بیوی اور بیٹے سمیت( اپنے بیٹے کو بچانے اور دنیامیں اِسے زندہ رہنے اور اِسے عظیم انسان بنانے کی خواہش کو اپنے سینے میں ہی لے کر اپنے معصوم بیٹے عبیر اور بیوی یاسمین کے ساتھ) اِس دنیا سے منہ موڑگیااور اپنے پیچھے یہ سوال چھوڑگیاکہ کیا مظفرکو مظفرکی غفلت نے ڈبودیاہے یعنی کیا مظفرکو وزیربلدیات اویس مظفرکی غفلت نے ڈویاہے…؟جنہیں یہ معلوم تھاکہ اِس سال مون سون کی بارشیں زیادہ ہوں گیں تو کیا وزیربلدیات مظفر کو بارشوں کی تباہ کاری اور اِس کے نقصانات سے بچاو¿ کے لئے اقدامات نہیں کرنے چاہئے تھے…؟ ابھی وقت ہے کہ وزیربلدیات اویس مظفر ماہِ رواں کے آخری ہفتے سے ستمبر کے تیسرے ہفتے تک ہونے والی مون سون کی شدیدبارشوں سے نمٹنے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کریں اور برساتی نالوںاورگٹروں کی صفائی سُتھرائی کے ساتھ ساتھ اُن پستوں کی بھی مرمت فوری طور پر مکمل کرالیں جو کسی وجہ سے کمزور ہوگئے ہیں اور ٹوٹنے کے درپر ہیں اور پھرکسی بڑی تباہی کے لئے تیار ہیں ایسے میں وزیربلدیات کی ذراسی توجہ بڑے نقصان سے انسانوں کو بچاسکتی ہے یوں وزیرموصوف کے اقدامات سے آئندہ ہونے والی مزید شدید بارشوں سے پھر کوئی مظفرکسی حادثے کی وجہ سے موت کو گلے لگانے اورقبرکی آغوش میںجانے سے بھی بچ سکتاہے اوراِس طرح پھر کوئی یہ نہ کہہ سکے گا کہ پھر کسی مظفر کو مظفر کی غفلت اور لاپرواہی اور سیاسی شعبدہ بازی نے مارڈالاہے۔ اگرچہ میرے دیس میں ایک وہ بھی وقت تھاکہ جب بارش جھگی نشینوں اور کچے مکانوں کے غریب و لاغرمکینوں کے لئے زحمت بن جایاکرتی تھی ، اورکہیں یہی بارش پکے مکانوں اور بنگلے والوں کے لئے اللہ کی عظیم رحمت کا درجہ رکھتی تھی غریبوں اور امیروں کی اِسی کیفیت کو شاعر نے اپنے شعر میں کچھ یوں بیان کیاہے کہ:
میں مانتاہوںکہ بارش خداکی رحمت ہے یہ اُس کا لُطف وکرم ہے بڑی عنایت ہے مگریہ کہتے ہیں جُھگی نشیں رو روکر ہمارے واسطے رحمت بھی ایک ”زحمت“ہے
heart screaming throat
یہاں میرے خیال میں یہ سب کچھ تو ٹھیک ہے اور اِس سے بھی انکار نہیں کہ ایک زمانے سے مشاہدے میں یہی آیا ہے کہ بارش جھگی نشینوں اور کچے مکانوں کے مکینوں کے لئے زحمت ہواکرتی ہوگی مگرآج میں شاعر کے اِس شعر سے متفق نہیں ہوں کیوں کہ میں نے دیکھاکہ گزشتہ دنوں شہر قائد کراچی میں رواں مون سون کی ہونے والی پہلی موسلادھار بارش نے جو تباہی مچائی ہے اِس مرتبہ اِس کی زد میں جھگی نشین اور کچے مکانوں کے مکیں بھی ضرورآئے ہوں گے مگر اِس بار مشاہدے میں یہ آیا کہ میرے شہرکراچی میں حالیہ بارش کی تباہ کاری کا زیادہ ترنوالہ بنگلے اور پکے مکانوں کے مکین بنے ہیں، جنہیں خدایاد آگیااور اِنہیں احساس ہوگیاکہ اِ انسانوں کی خوش فہمی اِنہیں غرورو تکبر میں مبتلاکردیتی ہے اور یہی وہ عنصر ہے جو خداکو پسند نہیں ہے اورکبھی کبھی اِنسان اپنی اِسی خوش فہمی اور تکبر کی وجہ سے ایسے ہی ناگہانی آفات کا شکار ہوتاہے اورپھریہ اپنے گناہوں اور غروروتکبر سے توبہ کرتادیکھائی دیتاہے۔
بہرحال… !حالیہ صرف چندگھنٹوں کی بارش کے دوران پیش آنے والے واقعات نے جتنی انسانی جانوں کو موت کے منہ میں دھکیل کر اِنہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قبرکی آغوش میں جا دیاہے آج اِن واقعات نے شہرکراچی کے ہر فرد کوشدیدذہنی قرب اور اذیت سے دوچار کردیا ہے آج یقینی طور پر بارش کی اِس تباہ کاری کو اہل کراچی مدتوں نہیں بھول پائیں گے۔
جہاں ہفتے کی صبح شروع ہونے والی چندگھنٹوں کی مون سون کی پہلی موسلادھار بارش نے اپنے غیض و غضب سے شہرکراچی کے سیکڑوں بنگلے والوں اور پکے مکانوں کے مکینوں سے سُکھ چھیناتو وہیں اِس بارش نے کراچی کے علاقے شفیق موڑمیں گاڑی نالے میں گرنے کے ناگہانی حادثے میں حیدرآباد لطیف آباد کے مستقبل رہائشی اور 2000ءمیں داو¿د انجینئرنگ کالج سے کیمیکل ڈپارٹمنٹ سے پاس آو¿ٹ ہونے والے 36سالہ جاں بحق ہونے والے مظفرسلیم اور اِن کی بیوی یاسمین مظفراور اِن کے ڈیڑھ سالہ بیٹے عبیرخاںکی موت نے بھی شہرقائد کے ہرفرد کوافسردہ کردیاہے۔
جبکہ خبر یہ ہے کہ تاحال گلبرک کے پی آرسوسائٹی کے نالے میں کارسمیت ڈوب کر جاں بحق ہونے والے مظفر کی لاش نیو ی کے غوطہ خوروں کی مددسے تلاش کی جارہی ہے تاہم اِن کے ساتھ ڈوبنے والی مظفرکی بیوی یاسمین مظفراور اِن کے بیٹے عبیرخاں کو نارتھ کراچی کے قبرستان میں سُپردخاک کردیاگیاہے اِس موقع پر انتہائی رقت آمیرمناظردیکھنے میں آئے ہیں، مظفرسلیم کی والدہ نے حکومت سے فریادکی ہے کہ مجھ بڑھیانے اپنی بہواور پوتاتوکھودیا، اَب خداکے واسطے میرابیٹامیری آنکھوں کی ٹھنڈک میرے دل کا سکون ، میرے بڑھاپے کا سہارامیرابیٹامظفرہی ڈھونڈدیاجائے، میرے بیٹے مظفرنے تو چاند رات پر اپنی بہنوں سے ملنے کا وعدہ کیاتھالیکن وہ چاند رات ہی نہیں آئی اور اِنہی کے ساتھ مظفرکی بہنوںنے بھی اپنے انتہائی دلخراش لہجے میں حکمرانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ میرے بھائی کو کہیں سے بھی ڈھونڈکرلایاجائے، ہم اپناایک بھائی تو پہلے ہی کھوچکے ہیںدوسرے کے کھونے کا صبر کہاں سے لائیں۔
حکمرانوں اپنے گریبانوں میں تو جھانک لواور اپنی سیاسی بازی گری کے چکر میں بہنوں کو بھائیوں سے اور ماو¿ں کو اپنے بیٹوں سے جداکرنے کا عمل بند کردو اور جلد ازجلدمون سون کا اگلابارشوں کا نیاسسٹم آنے سے قبل صوبے سندھ اور شہرِ کراچی سمیت سارے مُلک میں طوفانی بارشوں سے تحفظ کے لئے حفاظتی اقدامات کرلیںتو ٹھیک ورنہ کسی بھی ناگہانی حادثے کے بعد متاثرین سے بددعائیں بٹورنے کے لئے تیار ہوجائیں۔
گولڈوین کا کہناہے کہ” جو شخص محنتی ، ذہن، ایمان دار اور پُرجوش ہے اُسے زندگی سے خُوف کھانے کی ضرورت نہیں ہے“اور جن اشخاص ور لوگوں میں اِن خصوصیات کی کمی ہوتی ہے کہ وہ ڈر اور خوف میں مبتلارہتے ہیں اور اِسی عالمِ گھبراہٹ میںہرکام غلط کرکے بھی شرمندگی کا احساس نہیں کرتے ہیں،ایسے ہی لوگوں اور اشخاص کو زمانے نے برے ناموں سے یادکیاہے۔
اور اِسی کے ساتھ ہی دانا کہتے ہیں کہ زندگی کے بس دوہی پہلو ہیں ایک زندہ دلی اور دوسرا المناک جو پہلو ہے وہ اِس کا مردہ دلی ہوناہے جو اپنے اندر بڑے گہرے معنی رکھتاہے اُن لوگوں کے لئے جو اول پہلو سے بہرامندہ ہیں اُن کے نزدیک دوسرا پہلو بے معنی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کااول و آخر اور اصل مقصد ہی زندہ دلی ہے،جو زندگی میں کچھ کرنے کا خواہشمندہو اُسے ہر صورت میں اپنی زندگی میں زندہ دلی کے معنی و مفہوم کو سمجھناہوگااور اُس ہی کی روشنی اور متین کئے گئے اُصولوں اور ضابطوں کے مطابق اپنی زندگی کو گزارناہوگا،داناکہتے ہیں کہ زندگی ایک ایسے قیمتی کے ماندہ لباس ہے جسے ایک بارہی پہناجاسکتاہے اگر اِنسان کے عزائم مردہ نہ ہوچکے ہوں توزندگی کے اِس لباس کو زیب تن کرکے بہت کچھ کرسکتاہے کوئی بھی انسان اپنے دورِ زندگی میں یقینی طور پر اِسے نایاب وچمک دار ہیرابھی بناسکتاہے اور بے نورنوکدارکانچ کا ایک ایساٹکڑابھی بناسکتاہے جو راہ میں رہ کر انسانوں کو زخمی کرتاہے اور اگر یہ چاہئے تویہ بارش کا وہ قطرہ بھی بن سکتاہے جو سیپ میں بندرہنے سے آب دار موتی بن کر نکلتاہے، اور اگر یہی دلدل میں گرجائے تو کیچڑ کا حصہ ہوکر رہ جاتاہے۔