حسب روایت امسال بھی چہار طرف ملک میں یوم آزادی کی تیاریاں عروج پر ہیں ۔بازار پر رونق ہوچکے ہیں لوگ اپنے گھروں پر قومی پرچم لہرا رہے ہیں ۔سرکاری و غیر سرکاری عمارتوں کو سجانے کی تیاریاں شروع ہیں۔ یوم آزادی کے دن بچے ،جوان، بوڑھے ،مرد و عورتیں سب اپنی خوشی کا شاندار مظارہ کرتے ہیں سرکاری و غیر سرکاری ادارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے زیر انتظام یوم آزادی کے موقع پر پر وقار تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔پاکستان کو معرض وجود میں آئے چھیاسٹھ سال گزرچکے ہیں۔ گذشتہ چھیاسٹھ پرسوں سے ہم ان تقریبات کا مشاہدہ کرتے آرہے ہیں۔
ان تقریبات و مجالس میں حکمران و سیاست دان تجدید عہد و وفا کے بلند بانگ دعوئوں کا اظہار کرتے ہیں ۔مگر افسوس اب تک ملک پاک جو کہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا اور تحریک پاکستان میں قربانیاں والے قائدین اور عامة الناس نے صرف اس انفرادی و امتیازی نعرہ پر قربانیاں پیش کیں کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ”۔قائد اعظم نے اپنے متعدد خطابات میں اس امر کی وضاحت کرتے رہے کہ ہم نے مسلمانوں کے لیے صرف ایک الگ زمین کا خطہ حاصل کرنے کے خواہش مند نہیں ہیں۔
ہم ملک پاک کو ایک تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے کی تمنا رکھتے ہیں ۔اس آزاد ریاست میں ہم اسلام کی عالمی و آفاقی تعلیمات کو نافذ و رائج کرکے اسلام کے عدل و انصاف ،اسلام کے معیشت و معاشرت کے نظام کے مثالی ہونے کا ثبوت فراہم کریں گے اور اس طرح دوسرے ممالک کو بھی اس جانب متوجہ اور مرعوب کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل اسلام کے نظام میں موجود ہے بس اخلاص نیت کے ساتھ استفادے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح قائد اعظم یہ بھی خواہش رکھتے تھے کہ ملک پاک میں مسلمان آزادی کے ساتھ اسلامی تعلیمات پر عمل کرسکیں۔
قائد اعظم نے قیام پاکستان کے فوراً بعداسی اساسی و اصولی نکتہ پر عمل کرتے ہوئے علامہ اسد مرحوم کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی کہ وہ ملک پاکستان میں اسلام کے معاشی ،معاشرتی اور عدالتی نظام کے عملی نفاذ کے سلسلہ میں اپنی سفارشات مرتب کریں۔ (مگر بد قسمتی سے قائد اعظم کی وفات کے بعدسر ظفراللہ خان کی خفیہ سازش کے باعث ان کو اس ذمہ داری سے ہٹا کر دوسرے منصب پر فائز کر دیا گیا) ۔اسطرح بدقسمتی سے یہ عمل پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔
Quaid-e-Azam
قر ارداد پاکستان کی تشکیل میں بھی علامہ اسد مرحوم نے اپنا کردار ادا کیا ۔اس قراداد میں اس امر کی وضاحت کردی گئی کہ ہم ملک پاک میں کوئی آئین و قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں ترتیب دیا جائے گا بلکہ ہر نیا آئین اور قانون تشکیل دینے کے لیے قرآن و سنت سے رہنمائی لینا لازم ٹھرا دیا گیا۔ انیسو تہتر میں پاکستان کا باضابطہ آئین تشکیل دیا گیا۔ اس آئین کی روشنی میں بھی اس امر کی وضاحت کی گئی کہ اس ملک پاک کا مکمل نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ ملک پاک میں اسلام کی بالادستی کو فوقیت و اہمیت دی گئی اور قرارداد مقاصد جو کہ پہلے آئین کا ضمیمہ کے طورپر شامل ہوتا تھا کو آئین کا باضابطہ حصہ بنا دیا گیا۔
مگر افسوس قرارداد مقاصد کو آئین کے ضمیمہ سے آئین کا حصہ تو بنادیا گیا مگر اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں تعزیر و سزا مقرر نہیں کی گئی جس کی وجہ سے ملک پاک کے حکمران شطر بے مہار کی طرح اس اساسی اصول و آئین پر عمل کرنے میں منحرف ہوئے ہیں ۔ہماری بے عہدی اور اسلام سے کھلم کھلا انحراف کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس ملک پاک کی پینسٹھ پرسوں میں حفاظت کی ہوئی ہے۔جبکہ یہ حقیقت اظہرمن الشمس قیام پاکستان کے دن سے ہی دشمن سرگرم عمل ہیں کہ کسی طرح اس ریاست کو ناکام بنا دیں ،ملک پاک میں دہشت گردی، قتل وغارت گری جیسے تمام فتنوں کی پشت پناہی ملک دشمن عناصر ہی کر رہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی ملک پاک کو اب تلک کوئی مخلص قیادت میسر نہ آسکی جس کے باعث ملک معاشی و معاشرتی بحران کا منبع بناہواہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس چھیاسٹھویں یوم تاسیس کے موقع پر تحریک آزادی میں قربانیاں پیش کرنے والے قائدین اور عامة الناس کی ارواح کے ساتھ بے عہدی کے ساتھ اپنی غلطیوں اور کو تاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اللہ سے توبہ کریں اور اپنی اس غلطی کا ازالہ کرتے ہوئے اس یوم آزادی کے موقع پر خلوص نیت کے ساتھ نظریہ پاکستان کا تحفظ کرتے ہوئے ملک پاک میں عملاً اسلامی نافذ کریں۔
اگر ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ عمل میں نہ لایا گیا تو اس صورت میں نہ تو ملک پاک امن و سکون میسر آئے گا ،نہ ہی معاشی و معاشرتی بحران کا خاتمہ ہوسکے گا، نہ ہی ملک پاک میں استحکام آسکے گا۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں ملک کے قیام کو وجود میں لانے کے لیے قربانیاں پیش کرنے والوں کی ارواحیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔