شیطان کے اُستاد

Month of Ramadan

Month of Ramadan

پریشان ذہن کے ساتھ لکھنے بیٹھا ہوں تو بہت سے متضاد خیالات قلم کی نوک سے مچل کر کینوس کے پروں پر سوار ہوکر قارئین کے سامنے نوحہ کناں ہونے کے خواہش مند ہیں۔ سچے جذبات کی ترجمانی کرنے والے قلم کاروں کو آج اخبار کے صفات کے سوا کوئی برداشت نہیں کرتا۔ ہوسکتا ہے میری باتیں شیطان کے اُستادوں کو ناگوار گزریں لیکن عادت سے مجبور ہوں کہوں گا ضرور۔ ماہ مقدس جس میں شیطان کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور رحمتوں کے در کھول دئیے جاتے ہیں۔ اگر ماہ صیام میں شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے تو پھر ماہ رمضان کی آمد پر گراں فروشی کرنے والے کون ہیں محتاط اندازے کے مطابق سال کے کسی بھی مہینے کے مقابلہ میں ماہ رمضان میں ہونی والی چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں کی تعداد 65 فیصد تک زیادہ ہے۔

ماہ مبارک میں اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کون کرتا ہے جبکہ شیطان تو اللہ تعالیٰ کی قید میں ہوتا ہے۔یہ یقینا شیطان کے اُستادوں کا کام ہوسکتا ہے۔ ماہ رمضان کے 29 ایام پاکستانی عوام کو رحمتیں، برکتیں اور رونقیں عطا کرنے کی بجائے دکھوں، تکلیفوں، سسکیوں اور المیوں کی داستان رقم کرگئے۔ شیطان کے قید ہونے کے باوجودسفاک قاتلوں نے اپنی بے رحمانہ کارروائیاں جاری رکھیں اور لگاتار بے گناہ معصوم انسانوں کا خون پانی کی طرح بہاتے رہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماہ مبارک میں ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر حملے کے دوران دہشتگرد اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کے ساتھ ساتھ کئی افراد کو قتل کر گئے۔

مچھ کے مقام پر 14 مزدوروں کا قتل، لیاری میں فٹبال میچ کے اختتام پر بم دھماکے میں 7 معصوم بچوں سمیت 11 افراد کی ہلاکت، جمعرات کے دن عید الفطر سے ایک دن پہلے کوئٹہ پولیس لائن میں خود کش دھماکہ وہ بھی نماز جنازہ کے وقت بیسوں افراد کو نگل گیااور 60 کے قریب افراد شدید زخمی ہوئے، گلگت بلتستان میں سانحہ دیامر کی تقتیش کرنے والے تین آفیسران کا قتل اور اسی طرح کی مزید کتنی ہی دہشتگردانہ کارروائیاں کس نے کیں جبکہ تمام شیاطین تو زنجیروں میںجکڑے ہوئے تھے۔ میں عام آدمی ہوںاور عام آدمی کے ذہن میں عام سوالات اور جوابات گردش کرتے رہتے ہیں۔

میرے پاس اس سوال کا ایک ہی جواب ہے کہ جب انسان راہ حق سے دور نکل جاتا ہے تو شیطان اُس کی غلامی اور شاگردی کرتے ہیں۔ عید کے دن بہت سی مبارک بادوں کے ساتھ ایک ایسا پیغام ملا جس نے روح تک کو رولا دیا۔ کوئٹہ سے ببرک جمالی صاحب نے مجھے انتہائی درد ناک اور دل دہلا دینے والا ایس ایم ایس کیا، اُن کا میسج کچھ یہ تھا(کوئٹہ کی عید )بڑی انوکھی ہے اس بار عید کی خریداری میں میرے شہر کے لوگ رو، رو کے کفن خرید رہے ہیں اپنے پیاروں کے لئے میرے بھائی نے شہیدوں کی مغفرت کے لئے دعا کی اپیل کی ہے۔

Allah

Allah

میں بھی دعا گو ہوں اور آپ سے بھی دعا کی اپیل ہے کہ کوئٹہ سمیت جہاں جہاں بھی مسلمان شہید ہورہے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کی بخشش فرما کر اُنہیں بلند درجات عطا فرمائے، اور پاکستان سمیت پوری دنیا کو امن کا گہوارہ بنائے(آمین)پاکستان میں آج دہشتگردی کا راج ہے کہیں حکومت کا وجود نظر نہیں آتا لیکن حکمران عوام کو لگاتار دھوکے میں رکھے ہوئے ہیں، دہشتگرد تیزی کے ساتھ اپنے ہداف کو نشانہ بنا کر پاک دھرتی کو لہولہان کررہے ہیں،پاکستانی عوام لاشیں اُٹھا اُٹھا کر تھک چکے ہیں لیکن حکمران ملک کی بجائے اپنی حکومت (اقتدار)کو طول دینے کی فکر میں نطرآتے ہیں۔ usa سے شائع ہونے والے ہفت روزہ اخبار (پاکستان پوسٹ )کی خبر کے مطابق پاکستان کے خفیہ اداروں نے خبردار کیا ہے۔

کہ دہشتگردوں نے بحریہ، ایئرفورس کے ہیڈ کواٹرز اور پارلیمنٹ ہائوس پر ممکنہ حملوں کی منصوبہ بندی کرلی ہے اور اس کے لئے تمام ممکنہ حفاظی اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔خفیہ ادارے نے کچھ روز قبل ایک کالعدم تنظیم کے کمانڈر کی ایک گفتگو ریکارڈ کی ہے جس میں وہ دوسرے کمانڈر سے کہہ رہا تھاکہ ڈیرہ اسماعیل خان جیل والے واقعہ کے بعد ان کے مقاصد کچھ حد تک تو حل ہوئے ہیں لیکن بڑے مقاصد کے حصول کے لئے وہاں کارروائی ضروری ہے جہاں بڑے بیٹھتے ہیں، پاکستان پوسٹ لکھتا ہے کہ وزارت داخلہ کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ اس ٹیلیفونک گفتگو میں اسلام آباد کے بڑے گھروں کا بھی ذکر کیا گیا۔

اور کہا گیا کے وہاں کے مکینوں کو سبق سیکھانا ضروری ہے۔ ذرائع کے مطابق بڑے گھروں سے مراد پارلیمنٹ ہائوس، پاکستان نیوی اور پاکستان ایئر فورس کے ہیڈ کواٹرز ہیں۔ وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق بڑے گھروں کے کے مکینوں کے خلاف بھی اُسی طرح کی کارروائی کے بارے میں کہا گیا تھا جس طرح کی کارروائی چند روز قبل ڈیراہ اسماعیل خان سینٹرل جیل میں کی گئی تھی، جس میں دو سو سے زائد قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے، رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ شدت پسندوں کے حملوں سے متعلق خفیہ اداروں نے جورپورٹ بھیجی تھی شدت پسندوں نے ویسی ہی کارروائی کی۔

اُس رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ شدت پسندوں کے حملوں سے پہلے جیل کے اندر ہنگامہ کیاجائے گاجس پر پولیس حکام اس معاملے کونمٹانے میں لگے ہوں گے اورجیل کے باہر سکیورٹی تسلی بخش نہیں ہوگی جس کا شدت پسند فائدہ اُٹھاتے ہوئے جیل پرحملہ کردیں گے خفیہ اداروں کی مکمل رپورٹ بروقت ملنے کے باجود ڈیراہ اسماعیل جیل کو دہشتگردوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کئے گئے جس کا نتیجہ ہم دیکھ چکے ہیں۔اگر حکومت نے اب بھی خفیہ اداروں کی رپورٹ کو نظر انداز کردیا تو اللہ نہ کرے کوئی بڑا نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے حال و مستقبل کے بارے جس قدر عوام پریشان ہیں۔

Terrorism

Terrorism

اگر اُتنی ہی سنجیدگی کے ساتھ حکمران بھی سر جوڑ کر بیٹھ جائیں تو بہت جلد پاکستان بھر سے دہشتگردی و تشدت پسندی کا خاتمہ ممکن بنایاجاسکتاہے۔ لیکن شیطان کے آقائوں اور اُستادوں سے بھلے کی اُمید کرنا انتہائی بیوقوفی ہوگی۔ شیطان کے اِن استادوں کو تو کوئی ماہ صیام میں بھی قید نہیں کرتا تو پھر اب تو ماہ مبارک گزر چکا۔ ابھی سعودی عرب سے پاکستانی بھائی الیاس کا میسج آیا ہے کہ میں اپنے کالم کے ذریعے اُن کا پیغام غیرت مند پاکستانی عوام اور غلامان (ڈیش، ڈیش)حکمرانوں تک ضرور پہنچائوں، اُن کا پیغام ہے کہ اسلام علیکم جناب عزت مآب سب سے پہلے عید مبارک انشاء اللہ آپ اور آپ کی فیملی خیریت سے ہوں گے۔

جناب مجھے اپنے وطن عزیز سے اتنی محبت ہے جسطرح مجھے دین سے یعنی پیاراپاکستان میرا دین اور ایمان ہے پر اب جذبہ دشمنان دین کا نہیں بلکہ ان معلون حکمرانوں پر جو میری مقدس ماں یعنی میرے پیارے پاکستان کی چھاتی پہ خونخواردرندوں کی طرح اپنے ناپاک فعل انجام دے رہے ہیں، تھو، تھو، تھوان ملعون حکمرانوں پر جوہم غریب وطن پردیسیوں پرشکوے تو بہت کرتے ہیں لیکن پردیس میں اِن پاکستانیوں کی کوئی مدد کرنے کی بجائے مشکلات میں اضافے کا باعث بنتے ہیں، کاش عید کے دن ہماری کال مل گئی ہوتی توہم بھی اپنے گھر والوں سے بات کرلیتے۔ وطن عزیز میں، گیس، بجلی پانی باقی تو اور روٹی بھی نہیں ملتی۔

اور پردیس والے بیچارے فون کال سے بھی محروم ہیں انڈیااور بنگلہ دیش کی کال تھرو اگرہم وطن عزیز کال کریں تو کال ملتی نہیں اورفری میں بیلنس ضائع ہوجاتا ہے۔ الیاس بھائی نے حکمرانوں کے لئے کچھ سخت الفاظ بھی استعمال کئے ہیں جو آج کے حکمرانوں پر خوب جچتے ہیں لیکن اخلاقیات کا خیال رکھتے ہوئے میں انہیں اپنے کالم میں شامل نہیں کرسکتا۔ آخر میں الیاس بھائی نے لکھا کہ آپکا خادم وفائے پاکستان محمد الیاس سعودی عرب (الطائف)راقم کا پاکستانی عوام اور حکمرانوں سے سوال ہے کہ کیا ہمارے بڑوں نے اسی آزاد، خودمختار اور خودار پاکستان کا خواب دیکھا تھا کیا برصغیر کے مسلمانوں نے اسی طرح کا آزاد ملک مانگا تھا۔

جس میں مسلمان ہی مسلمان کوقتل کررہا ہے جس میں مسجدیں ویران اور مئے کدے آباد ہیں جس میں مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت سستی اور روٹی مہنگی ہے الیاس بھائی کے دکھ بھرے الفاظ سے ظاہر ہورہا ہے کہ عید کے دن اُن کی اپنے گھر والوں سے فون پربات نہیں ہوسکی، کیا ایسے پاکستان کاخواب دیکھا تھا اقبال نے جس کے حکمران دن میں دو مرتبہ سعودی عرب آ، جا سکتے ہیں لیکن غریب عوام کا ٹیلی فونک رابطہ بھی بند کردیا جاتا ہے۔ عید مسلمانوں کے لئے سب بڑا خوشی کا تہوار ہے لیکن اس بار عید الفطر غم وخوف کے گہرے سائے میں گزری۔ نماز عید ادا کرتے وقت لوگ ڈرے اور سہمے نظر آئے۔ جس پر شیطان اور اُس کے اُستادوں نے اپنی کامیابیوں کا یقینا جشن منایا ہوگا۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر : امتیاز علی شاکر

imtiazali470@gmail.com.03154174470