ایک نظریے کی بنیاد پر مسلمانوں کا اکٹھے ہو کر جدوجہد کرنا پھر اسی جدوجہد اور سچے جذبوں کی بدولت یہ معجزہ رونما ہوا۔ اس سے قبل دنیا کی تاریخ میں اس نوعیت کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا تھا کہ کوئی ملک صرف مذہبی قومیت کی بنیاد پروجود میں آیا ہو، یہ شرف وطن عزیز کو ہی حاصل ہے۔دنیا کے باقی تمام ممالک اپنی جغرافیائی حدود اور قومی تشخص کے ساتھ پہلے موجود تھے، ہر ملک کے رہنے والے پہلے ایک قوم بنے اور پھر انہوں نے اپنے حالات اور ضروریات کے مطابق کسی مذہب یا عقیدہ کو اپنایا یہ صرف پاکستان ہی ہے جس کو اسلام اور مسلم قومیت نے وجود بخشا۔ آج جب ہم پھر سے اپنی آزادی کا دن منانے جارہے ہیں قوموں کی زندگی میں یہ عرصہ ایک طویل مدت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس یوم آزادی کے دن ہماری قوم کے نوجوانوں کو بجائے ہلڑ بازی، ون ویلنگ اور گانے بجانے جیسے فضول کاموں میں اپنا وقت برباد کرنے کی بجائے پاکستان کی ناکامیوں اور حاصل ہونے والی کامیابیوں پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
اپنی ناکامیوں کے اسباب پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔اس وقت تو گوروں کا بھی یہی ماننا تھا کہ یہ لولا لنگڑا پاکستان زیادہ دیر قائم نہیں رہنے والا۔ ہندو معیشت دانوں کی زبانوں پر یہ باتیں عام تھیں کہ پاکستان کبھی بھی معاشی لحاظ سے اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہو پائے گا۔ ہندوئوں اور گوروں کی ملی بھگت سے پاکستان کے خاتمہ کے لئے بہت کوششیں کی جاتی رہی ہیںکہ کسی طرح اس ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آنے والے وطن کا نام مٹایا جا سکے دشمنی تھی تو صرف اور صرف اس نظریے سے اس دین سے جس کے بطن سے یہ نیا وطن جنم لے رہا تھا۔ پاکستان نے معیشت کے میدان میں قابل ذکر ترقی کی ہے اگر ہندو ماہرین اقتصادیات کے بیانات کو اس پس منظر میں دیکھا جائے تو کہیں نہ کہیں یہ نظر آتا تھا کہ پاکستان معیشت کے میدان میں کبھی بھی اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہو سکے گا لیکن کہا جاتا ہے نا اگر ارادے نیک ہوں اور محنت کی جائے تو منزل مل ہی جاتی ہے۔
Allha
اس بات کو ذہن مین رکھنا چاہیے کہ ابھی ہماری منزل نہیں آئی ابھی ہمیں ترقی پذیر ممالک سے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونا ہے۔ ہمارا دشمن ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے ہر قسم کے منفی حربے استعمال کر رہا ہے۔ آج جن مسائل کا وطن عزیز کو سامنا کر رہا ہے یہ حالات نئے نہیں ہیں، تاریخ ایک مرتبہ پھر واقعات کو دہرا رہی ہے اس طرح کے مصائب کا سامنا ہم پہلے بھی کر چکے ہیں یہ فرقہ وارانہ کشیدگی کی صورتحال بھی دشمن کے بنائے ہوئے منصوبے کا ایک حصہ ہے آج پھر سے ضرورت ہے باہمی تفریق و عناد کو بھلا کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کی۔۔۔! تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں قوموں کے زوال کے اسباب میں جو بات نما یاں ہے جب کسی قوم کے افراد ذاتی مقاصد کو قوم کے اجتماعی مقاصد پر ترجیح دینے لگ جاتے ہیں۔ یوم آزادی کے دن ہمیں یہ عہد کرنا ہو گا ہم اس آزادی جیسی عظیم نعمت کی قدر کریں گے آزادی جیسی نعمت بہت مشکل سے نصیب ہوتی اس کی قدر ان لوگوں سے پوچھیں جو اس سے محروم ہیں ہمیں وہ وقت نہیں بھولنا چاہئے۔
جب ہمارے بزرگوں نے کتنی قربانیاں دیں تھیں صرف اور صرف اس عظیم وطن کی خاطر۔ ہم کیوں قائد کے یہ انمول الفاظ بھول جاتے ہیں ”ایمان۔ اتحاد، تنظیم” ہمیں جاپان اور کوریا کے حالات دیکھنے چائیے کس طرح ان قوموں نے اتنی تباہی و بربادی کے باوجود اپنی محنت سے اپنے آپ کو صف اول کی قوموں میں لاکھڑا کیا ہے۔ آج ہمیں اپنے گزرے ہوئے برسوں پر نظر ڈالنی ہو گی اتنے برسوں میں کیوں ہم دیر پا مثبت پالیسیاں، آئین سازی اور دیگر امور پر توجہ نہ دے سکے۔ ہمیں سیاست کے میدان میں اتحاد ویگانگت اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ہمیں ان مشکل حالات کا مقابلہ مل کر ایک قوم بن کر کرنا ہو گا۔ مذہبی فرقہ واریت اور علاقائی تشخص جیسی فضولیات سے باہر نکل کر سوچنا ہو گا۔ پھر ہی ہم ایک ترقی کر سکتے ہیں۔ ہمیں ایک بار پھر سے یہ سوچنا ہو گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں !! کیا آپ تیار ہیں۔