یہ بات ہم سب پہ آشکار ہے کہ پاکستان بنانے کیلئے ہمارے بزرگوں نے کیا کیا قربانیاں دیں اور ان پر کس طرح کے مظالم ڈھائے گئے، وہ مناظر تصور میں لائیں تو آج بھی روح کانپ اٹھتی ہے۔پاک وطن کے حصول اور انگریز اور ہندو کے ظلم و ستم اور تسلط سے آزادی بہت ساری قربانیوں کے عوض ہمیں حاصل ہوئی۔کئی جانیں گئیں تو عزتیں بھی پامال ہوئیں اور بے سروسامانی کے عالم میں لاکھوں مسلمانوںنے پاک دھرتی پر قدم رکھا۔ ہندو یہ کہہ رہے تھے کہ بہت جلد پاکستان دوبارہ ہندوستان کا حصہ ہوگا کیونکہ معاشی اور فوجی لحاظ سے نومولود پاکستان غیر مستحکم صورتحال کا شکار تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قیام پاکستان کے بعد بھی پاکستان کے وجود کو کئی طرح کے خطرات لاحق تھے اور اسے سنبھالنا ایک نیا چیلنج بن چکا تھا اس نازک وقت میں قوم کے محسن جناب قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک مرتبہ پھر ہمت اور عزم کا ا مظاہرہ کیا اور پاکستان کو اس بھنور سے نکالا۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قوموں کی تقدیر اور ان کو سنوار نے کا سہرا ایک قائد کو ہی جاتا ہے اور بلاشبہ اللہ وبارک تعالیٰ نے پاکستان بنانے کیلئے قائد اعظم کی شکل میں ایک بے لوث،نڈر اور پرعزم لیڈر عطا کیا۔
جن کی جدوجہد کے نتیجے میں آج ہم آزاد فضائوں میں سانس لے رہے ہیں۔ موجودہ دور میں ہمارے ملک کو سیکیورٹی، معیشت سمیت جن گھمبیر مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے اس صورتحال میں بھی ہمیں قائد اعظم جیسے بے باک اوربے لوث لیڈر کی ضرورت ہے۔ملک میں توانائی کا بحران شدت اختیار کرچکا ہے بجلی اور گیس کی بدترین قلت نے جہاں کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والے دھوئیں کو خاموش کردیا ہے وہاں بے روزگاری کے سیلاب نے بھی جنم لیا ہے اور ساتھ ہی نہ صرف پاکستانی صنعتکار اپنی فیکٹریاں ہم سے جدا ہونے والے ملک بنگلہ دیش منتقل کررہے ہیں۔
بلکہ ملک سے غیر ملکی سرمایہ کار بھی اپنا سرمایہ کہیں اور منتقل کررہے ہیں۔ برآمدات کا گراف کرچکا ہے توغیر ملکی خریدار بھی ہمارے حریف ممالک کا رخ کررہے ہیں۔ امن و امان کی مخدوش صورتحال نے ہمیں ذہنی مریض بنا دیا ہے لوگ پاکستان کے اندر ہی سفر کرنے سے گریزاں ہیں۔ ملکی سرحدوں پرجارحیت کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ بھارت میں دوستی بس کو ماضی کے طرح پھر روکا گیا جبکہ دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن پر حملے اورپی آئی کے دفاتر کو ملنے والے دھمکی آمیز خطوط، پاکستانی سرحدوں پر بھارتی فوج کی حالیہ جارحیت بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
Nawaz Sharif
مگر نہ صرف غیر ملکی مبصرین خاموش ہیں بلکہ وزیر اعظم پاکستان نواز شریف بھی بجائے ان کاروائیوں کے اوپر کھل کر اور سخت موقف اپنانے کے محض مذاکرات اور تصفیہ کی بات کررہے ہیں۔ قارئین آپ کو علم ہوگا کہ ماضی میں کارگل پر پاکستانی افواج کا قبضہ کے باوجود موصوف خود جاکر امریکہ نوازی کا ثبوت پیش کرچکے ہیں۔ وطن عزیز کو درپیش بیرونی خطرات اپنی جگہ مگر حقیقت میں ہم نے ہی اپنے آباء کی قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی آزادی کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
ہم نے اس آزادی کی نہ تو قدر کی اور نہ ہی ہم نے اس ملک کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ہم خود ہی اس کے ساتھ کھلواڑ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور اس کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ ہم کہنے کو تو مسلمان اور آپس میں بھائی بھائی ہیں مگر ہماری زندگیاں اس سے خالی اور ہمارے کرداروں میں منافقت کا زہر بھر چکا ہے ۔ہم ناتوخود کے ساتھ مخلص ہیں اور نہ ہی اس دھرتی ماں کے ساتھ۔ہم بے چارگی کا ڈھونگ رچا کر، منافقت کا لبادہ اوڑھ کر اپنے ہی پیٹھ میں چھرے گھونپنے میں مصروف ہیں۔
ہم نے دیگر آزاد ہونے والی اقوام کی طرح اپنی آزادی کی قدر نہیں کی اور بنگلہ دیش کی طرح آج بلوچستان کی علیٰحدگی کا خوف ہمارے سروں پر منڈلا رہاہے۔ ہم ذاتی مفاد کو اجتماعی اور ملکی مفاد پر ترجیح دینے اور لالچ اور حوس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک مسائل اور مشکلات سے نکلنے کی بجائے مزید پریشانیوں میں گھرتا جا رہا ہے۔یہ کڑا وقت ہمارے ہی اعمال کا سبب ہے ہمیں ملک کو ان گھٹاٹوپ اندھیروں اور مشکلات سے نکالنے کیلئے پھر ایک قائد کی ضرورت ہے جونہ صرف ہمیں متحد کرے بلکہ وطن اور ہماری آزادی کیلئے تن، من دھن سے آگے بڑھے تاکہ پاکستان ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکے جشن آزادی مبارک پاکستان پائندہ باد۔