سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کیس میں چھ سال قبل لاپتہ ہونے والے مصطفی اعظم نامی نوجوان کو بائیس اگست کو عدلت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے بصورت دیگر نوجوان کو گرفت میں لینے والے سب انسپکٹر بشیر ڈار اور ایف سی کے جوانوں کو عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کردی ہے۔
چیف جسٹس نے ایف سی کی جانب سے عدالت میں حاضر میجر فرخ اکرام کو مصطفی اعظم کے والد کی جانب سے پیش کی گئی تصاویر دکھاتے ہوئے کہا کہ اس میں نوجوان کو گرفتار کرنے والے ایف سی کے اہلکار واضح طور پر پہچانے جاسکتے ہیں جبکہ اس بات کی تصدیق فرانزک رپورٹ سے ہوچکی ہے کہ یہ تصویر مصطفی اعظم کی ہے لہذا یا تو اس نوجوان کو عدالت میں پیش کردیں تاکہ عدالت دیکھے کہ معاملہ کیا ہے۔ اگر نوجوان کسی جرم میں ملوث ہوا تو اس کے خلاف قانون کی کارروائی کی جائے بصورت دیگر ایف سی کے اہلکاروں کو گرفتار کیا جائے۔
میجر فرخ اکرام نے بتایا کہ اس نوجوان کو پشاور دھماکے کے مقام سے پکڑا گیا تھا لیکن ابتدائی تفتیش کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔ جس کے بعد وہ نہ تو ایف سی کی تحویل میں ہے اور نہ ایف سی کو اس کے متعلق کچھ پتہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے نوجوان کو پکڑا چھا کیا۔ دہشت گردوں کو پکڑ کر ہمارے ادارے ثابت کررہے ہیں کہ وہ مصروف عمل ہیں لیکن کسی کو پکڑ کر اس کاریکارڈ مرتب کیے بغیر رہا نہیں کرسکتے لہذا نوجوان کو ہر حال میں عدالت میں پیش کیا جائے۔ مقدمے کی مزید سماعت بائیس اگست کو ہوگی۔