مشعل راہ

Journalism

Journalism

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے آپ کے پاس لکھنے کو الفاظ ہی نہیں ملتے ذہن پر سوچوں کے جتنے مرضی ہتھوڑے برسائے پر کچھ کارگر نہیں ہوتا۔ ایسا ہی کچھ حال میرا بھی ہے عید کی چھٹیوں پر دماغ نے بھی چھٹی کر ڈالی اور لکھنے میں میری مدد کرنے سے انکاری ہو گیا۔ ویسے بھی چھٹیاں عید کی ہوں یا کوئی بھی میرے لئے سب سے مشکل اور بور ترین مشغلہ چھٹیاں گزارنا ہوتا ہے۔ صحافت کے شعبہ میں رہ کر ایسی عادت بن چکی ہے کہ جس دن کرنے کو کچھ نہ ہو وہ دن پہاڑ جیسا نظر آتا ہے۔ سو ایسے ہی ذوق مطالعہ کی تسکین کیلئے چند اسلامی کتابوں کے تمام اوراق کنگھال ڈالے جن کو پڑھنے کے بعد اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیا تو آج کل یہ سب کچھ اپنے آس پاس ہوتا ہی نظر آیا۔ اسلامی احادیث، انبیاء کرام کے قصے، صحابہ کرام کی زندگی اور بزرگان دین کی مفید اور معلوماتی کتابیں پڑھ کر انسان اگر اپنا محاسبہ کرے تو پڑھتا جا شرماتا جا کے مصداق ہمت ہی نہیں رہتی کہ اپنے آپ سے ہی نظر ملا سکیں، ہم کیا تھے۔

کیا ہو گئے دنیا میں ہم کس لئے آئے اور ہم نے کیا روش اختیار کر لی کوئی سب کچھ پانے کے چکر میں مگن اور آخرت سے ہی بے فکر ہو چکا ہے۔ تہمتیں لگانا، بہتان بازی سب کا وطیرہ بن چکا ہے ا۔اصل میں مادی اشیاء کی محبت نے ہم سے احساس اور ہمدردی کو چھین لیا ہے ۔جب ہم میں ہی یہ چیزیں نہ رہیں تو رہنمائوں کا شکوہ کیا؟ ہم بے سکون ہو چکے ہیں کیونکہ ہم دوسروں کا سکون برباد کر کے سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دل سے کدورت نہ نکلے تو سکون کیسے حاصل ہوں؟۔ قارئین کرام اسی ضمن میں چن اسلامی حکایتیں اور ایک حدیث لکھ رہا ہوں۔ امید ہے میری طرح آپ سب لوگ ان کو پڑھ کر اپنی اپنی زندگی کا مشاہدہ ضرور کرینگے۔ ان سب سطور کو بغور پڑھیے اور اس بارے غور و فکر کیجئے گا کہ کہیں ہم میں یہ چیزیں تو نہیں۔ کاش ہمارے حکمران ان سب چیزوں کو پڑھ لیں تو کیا ہی بات مگر شاید وہ اپنے آپ کو سب چیزوں سے ماورا مخلوق سمجھتے ہیں۔

مگر یاد رکھیں یہ زمینی حکمران ہر چیز کا حساب حاکم اعلی, ہی کو دینا ہے ۔اور حاکم اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی پاک ذات ہے جس کے حضور ایک دن ہم سب کو پیش ہونا ہے۔ ایک ملک کا بادشاہ بیمار ہو گیا، جب بادشاہ نے دیکھا کے اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں تو اس نے اپنے ملک کی رعایا میں اعلان کروا دیا کہ وہ اپنی بادشاہت اس کے نام کر دے گا جو اس کے مرنے کے بعد اس کی جگہ ایک رات قبر میں گزارے گا،سب لوگ بہت خوفزدہ ہوئے اور کوئی بھی یہ کام کرنے کو تیار نہ تھا، اسی دوران ایک کمہار جس نے ساری زندگی کچھ جمع نہ کیا تھا۔ اس کے پاس سوائے ایک گدھے کے کچھ نہ تھا اس نے سوچا کہ اگر وہ ایسا کر لے تو وہ بادشاہ بن سکتا ہے اور حساب کتاب میں کیا جواب دینا پڑے گا اس کے پاس تھا ہی کیا ایک گدھا اور بس! سو اس نے اعلان کر دیا کہ وہ ایک رات بادشاہ کی جگہ قبر میں گزارے گا۔ بادشاہ کے مرنے کے بعد لوگوں نے بادشاہ کی قبر تیار کی اور وعدے کے مطابق کمہار خوشی خوشی اس میں جا کر لیٹ گیا، اور لوگوں نے قبر کو بند کر دیا، کچھ وقت گزرنے کے بعد فرشتے آئے اور اسکو کہا کہ اٹھو اور اپنا حساب دو۔

Medina Munawara

Medina Munawara

اس نے کہا بھائی حساب کس چیز کا میرے پاس تو ساری زندگی تھا ہی کچھ نہیں سوائے ایک گدھے کے!!!۔ فرشتے اس کا جواب سن کر جانے لگے لیکن پھر ایک دم رکے اور بولے ذرا اس کا نامہ اعمال کھول کر دیکھیں اس میں کیا ہے، بس پھر کیا تھا،سب سے پہلے انہوں نے پوچھا کہ ہاں بھئی فلاں فلاں دن تم نے گدھے کو ایک وقت بھوکا رکھا تھا، اس نے جواب دیا ہاں، فوری طور پر حکم ہوا کہ اسکو سو د’رے مارے جائیں، اسکی خوب دھنائی شروع ہو گئی۔ اسکے بعد پھر فرشتوں نے سوال کیا اچھا یہ بتاو فلاں فلاں دن تم نے زیادہ وزن لاد کر اسکو مارا تھا، اس نے کہا کہ ہاں پھر حکم ہوا کہ اسکو دو سو درے مارے جائیں، پھر مار پڑنا شروع ہو گئی۔ غرض صبح تک اسکو مار پڑتی رہی۔ صبح سب لوگ اکھٹے ہوئے اور قبر کشائی کی تا کہ اپنے نئے بادشاہ کا استقبال کر سکیں۔ جیسے ہی انہوں نے قبر کھولی تو اس کمہار نے باہر نکل کر دوڑ لگا دی، لوگوں نے پوچھا بادشاہ سلامت کدھر جا رہے ہیں، تو اس نے جواب دیا، ”او بھائیوں پوری رات میں ایک گدھے کا حساب نہیں دے سکا تو پوری رعایا اور مملکت کا حساب کون دیتا پھرے۔

کبھی سوچا ہے کہ ہم نے بھی حساب دینا ہے؟۔ اور پتہ نہیں کہ کس کس چیز کا حساب دینا پڑے گا جو شاید ہمیں یاد بھی نہیں ہے۔ مدینہ میں ایک حمام (غسل خانہ ) تھا۔ جس میں مردہ عورتوں کو نہلایا جاتا تھا اور ان کی تجہیزو تکفین کی جاتی تھی۔ ایک مرتبہ اس میں ایک خاتون جس کا انتقال ہو چکا تھا۔ نہلانے کیلئے لایا گیا۔ اس کو غسل دیا ج ارہا تھا کہ ایک عورت نے اس مردہ خاتون کو برا بھلا کہتے ہوئے کہا۔ یہ تو بدکار ہے اور اس کے کمر سے نیچے ایک لتڑ ماڑا۔ لیکن اس برا بھلا کہنے والی اور پھر مردہ عورت کو مارنے والی عورت کا ہاتھ جہاں اس نے مارا تھا چپک گیا۔ عورتوں نے بہت کوشش اور تدبیر کی لیکن ہاتھ الگ نہیں ہوا۔ بات پورے شہر میں پھیل گئی۔ کیونکہ معاملہ ہی عجیب تھا۔ ایک زندہ عورت کا ہاتھ ایک مردہ عورت سے چپکا ہوا ہے اب اس کو کس تدبیر سے الگ کیا جائے۔ مردہ کودفن بھی کرنا ضروری ہے۔اس کے لواحقین الگ پریشان ہوں گے۔ معاملہ شہر کے والی اور حاکم تک پہنچ گیا۔

انہوں نے فقہاء سے مشورہ کیا۔ بعض نے رائے دی کہ اس زندہ عورت کا ہاتھ کاٹ کر الگ کیا جائے۔ کچھ کی رائے یہ بنی کہ مردہ عورت کے جس حصہ سے اس زندہ خاتون کا ہاتھ چپکا ہے۔ اتنے حصہ کو کاٹ لیا جائے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ مردہ کی بے عزتی نہیں کی جا سکتی۔ کچھ کا کہنا تھا کہ زندہ عورت کاہاتھ کاٹنااس کو پوری زندگی کیلئے معذور بنادے گا۔ شہر کا والی اور حاکم امام مالک کا قدر شناس اور ان کے تفقہ اور فہم وفراست کا قائل تھا۔ اس نے کہا کہ میں جب تک اس بارے میں امام مالک سے بات کرکے ان کی رائے نہ لوں میں کوئی فیصلہ نہیں دے سکتا۔ امام مالک کے سامنے پورا معاملہ پیش کیا گیا۔ تو انہوں نے سن کر فرمایا نہ زندہ خاتون کا ہاتھ کاٹا جائے اور نہ مردہ عورت کے جسم کا کوئی حصہ الگ کیا جائے۔

میری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ مردہ عورت پر اس زندہ خاتون نے جو الزام لگایا ہے وہ اس کا بدلہ اور قصاص طلب کر رہی ہے لہذاس الزام لگانے والی عورت کو شرعی حد سے گزارا جائے۔ چنانچہ شرعی حد جو تمہت لگانے کی ہے یعنی اسی کوڑے۔ کوڑے مارنے شروع کئے گئے۔ ایک دو، دس بیس، پچاس، ساٹھ ستر بلکہ اناسی 79 کوڑوں تک اس زندہ خاتون کا ہاتھ مردہ عورت کے جسم کے کمر کے نچلے حصہ سے چپکا رہا۔ جوں ہی آخری کوڑا مارا گیا۔ اس کا ہاتھ مردہ عورت کے جسم سے الگ ہو گیا۔ ذرا سوچئیے ہم کس قدر آرام سے ایک دوسرے پر تہمتیں لگاتے پھرتے ہیں۔ مومنو جنت میں داخل ہونا چاہتے ہو تو آپس میں محبت کرو اس کا طریقہ کیا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے حتیٰ کہ ایمان لے آؤ، اور تم ایمان (مکمل ) نہیں لا سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو، کیا تمہیں وہ چیز نہ بتا دوں، اگر تم اسے کرے تو آپس میں محبت کرنے لگو گے ؟ سلام (السلام علیکم ) کو اپنے درمیان پھیلا دو۔ محترم قارئین کرام یہ سب باتیں اگر ہم سوچیں اور اپنانے کی سعی کریں تو ہماری زندگی بھی مشعل راہ بن سکتی ہے۔

Amjad Qureshi

Amjad Qureshi

تحریر : امجد قریشی