ڈوبے ہیں یا بچ گئے

Flood

Flood

اس وقت ملک میں جہاں سیلاب نے تباہی مچارکھی وہی پر ملک میں لوٹ مار کی سیاست کی وجہ سے قدرتی وسائل صرف پانچ فیصد لوگوں کے قبضہ میں جا رہے ہیں اور پچانوے فیصد لوگ اچھی روٹی کھانے کو ترس رہے ہیں بڑھتی ہوئی غربت ،بے روزگاری اور جہالت کے باعث پاکستان کے عوام کی معاشی صورتحال دن بدن گھمبیر ہوتی جارہی ہے حکومت اٹھارہ کروڑ افراد سے ٹیکس لے رہی ہیں اور صرف دو کروڑ افراد کا معیارِ زندگی بہتر بنانے پر خرچ کر رہی ہے۔

بدقسمتی کی انتہا تو یہ ہے کہ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں کو پاکستان کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا غریبوں سے ٹیکس لے لیا جاتا ہے مگر ان کو جانوروں کے برابر بھی اہمیت نہیں دی جا رہی اس وقت پاکستان کے اسی فیصد گھر انے ایسے ہیں جہاں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں، لو گ ناقص غذا کھا کر بیماریوں کا شکار ہو کر مر رہے ہیں جبکہ حکمران طبقہ اپنی سات نسلوں کیلئے اربوں روپے لوٹ رہے ہیں جس گھر میں غربت اور جہالت دونوں ہوں، وہ جہنم نما ہوتا ہے جس میں اسی فیصد لوگ جل رہے ہیں جبکہ حکمرانوں کی نظر میں سب اچھا ہے اب رہی سہی کسر سیلاب نے پوری کردی ہے۔

ملک کے مختلف علاقوں میں بارشوں اور سیلاب ریلیوں نے تباہی مچا دی ہے دریائے چناب میں سیلاب سے جھنگ کے 100 دیہات ڈوب گئے ،حافظ آباد میں 40بستیاں زیر آب آگئیں، تونسہ اور راجن پور میں سیکڑوں افراد بے گھر ہوگئے سیلابی پانی کے باعث پچاسی بستیوں کا کئی دن گذرنے کے بعد بھی سیالکوٹ سے زمینی رابطہ بحال نہ ہو سکا اور کئی علاقوں کا ملک کے دیگر حصوں سے زمینی رابطہ بھی منقطع ہوگیا دریائے توی میں طغیانی سے بجوات اور سیالکوٹ کو ملانے والا واحد پل بہہ جانے کے بعد درجنوں بستیوں کا سیالکوٹ سے زمینی رابطہ اب تک بحال نہ ہو سکا۔

دریائے راوی میں میلووال اور لدھے والہ ورکاں سمیت درجنوں دیہات پانی میں ڈو ب گئے بھارت کی جانب سے دریائے راوی میں پانی چھوڑے جانے سے قبل ہی راوی سائفن کے قریب کٹا کے باعث پانی کئی دیہات میں داخل ہوگیا۔ سیلاب کا یہ پانی ہمارے ساتھ آج سے نہیں ہے بلکہ اس کا اور ہمارا ساتھ برسوں پرانا ہے اور حکومتی بے حسی کے باعث محسوس ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ آئندہ بھی ہمارے ساتھ یوں ہی چلتا رہے گا اور اس ملک کے غریب باسیوں کو مزید غربت کی دلدل میں دھکیلتا رہے گا ایک غریب خاندان پورا سال محنت مزدوری کرتا ہے۔

Poor

Poor

تب کہیں جا کر وہ اپنے گھر والوں کے لیے کچھ خوشیاں اکٹھی کرتا ہے جن میں ایک ٹیلی ویژن ،دودھ کے لیے ایک عدد بھینس یا بکری اور کچھ گھریلوں سامان مگر سیلاب کے آتے ہی وہ غریب خاندان صرف اپنے پہنے ہوئے کپڑوں کے ہمراہ بمشکل اپنی مدد آپ کے تحت جان بچانے میں کامیاب ہوتا ہے اور اسکے پیچھے اسکا سارا سامان پانی کی نظر ہو جاتا ہے اور گذشتہ 65سالوں سے ہمارے ساتھ یہ سب کچھ ہورہا ہے مگر کیا مجال ہے کہ ہمارے ووٹوں سے ایوان اقتدار پہنچنے والے اس سیلاب کو روکنے کا کوئی حل تلاش کرسکیں۔

ان سیاستدانوں کی لوٹ مار ختم ہو تو تب ہی یہ عوام کے لیے کچھ سوچیں ہاں ایک صورت ہے کہ آئندہ آنے والے سیلابوں سے ہماری جان چھوٹ سکتی ہے کہ اگر ان پانیوں کا رخ ان بڑے بڑے ایوانوں کی طرف ہو جائے اچانک پانی کا کوئی ریلہ آئے جو ان کے اونچے محل نما مکانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دے ان کی آسائشوں کا سامان اپنے ساتھ بہا کرلے جائے اسکے بعد شائد یہ حکمران اس بات پر توجہ دیں کہ اب ملک میں سیلاب آئیں تو انکا پانی کیسے کنٹرول کرنا ہے۔

ورنہ تو یہ نظام ایسے ہی چلتا رہے گا غریب ہمیشہ سے مرتا آیا ہے اور آئندہ بھی یوں ہی مرتا رہے گا اور ان کے ووٹوں سے برسراقتدار آنے والے صرف ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر انکی بربادی کا تماشہ دیکھ کر یوں ہی وقت گذارتے رہیں گے اگر ہمیں اپنی تباہی اور بربادی سے باہر نکلنا ہے تو پھر اس بار سوچ لیں کہ ایسے لوگوں کو اپنے ووٹ کی طاقت سے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچائیں جو اس وقت بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوں جب آپ ڈوب رہیں ہوں نہ کہ وہ فضائی معائنہ کرکے یہ دیکھیں کہ ابھی ڈوبے ہیں یا بچ گئے ہیں۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر: روہیل اکبر