سکندر ملک کے بعد پیش ہے زاہد سرفراز۔ ابھی لوگ اسلام آباد ڈرامے کو بھولے نہیں ہیں اور ایک اور ڈرامہ شروع کر دیا گیا ہے۔ سکندر ملک نے تو صرف ایک کردار ادا کیا تھا لیکن سابق وزیر داخلہ میاں زاہد سرفراز صاحب نے ایک ساتھ شوشے چھوڑ کر کہانی میں مزید سسپنس پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اُسامہ بن لادن مرا نہیں زندہ ہے، امریکی کمانڈر اُسامہ کو زخمی کر کے ساتھ لے گئے تھے جسے انتہائی خفیہ جیل میں قید کر کے تفتیش کی جاری ہے، مشرف اور اُس کے حواریوں نے اسامہ کو پہلے پناہ دی اور پھر بلین ڈالر لے کر اس کی مخبری کر دی اس میں مشرف کیساتھ 2 فوجی افسر بھی ملوث تھے۔ زاہد سرفراز صاحب کی کہانی کا بالکل نیا اور تہلکہ خیز رخ یہ رہا، انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ آئندہ 72 گھنٹوں میں پرویز مشرف کو ریمنڈ ڈیوس کی طرح پاکستان سے فرار کروا دیا جائے گا۔
انہوں نے سارے معاملے کی خاصی تفصیل بیان کی ہے لیکن مجھے اُس سے کچھ لینا دینا نہیں،کیونکہ میں ایک عام پاکستانی ہوں اس لئے مجھے اسامہ کے زندہ یا مردہ ہونے سے کچھ فرق پڑتا ہے اور نہ ہی پرویز مشرف کے فرار ہونے سے میرے حالات میں کچھ بہتری آنے والی ہے۔ جب اُسامہ بن لادن بالکل زندہ تھا اور پرویز مشرف پاکستان کا بے تاج بادشاہ تھا میری یعنی عام پاکستانی کی حالت مسلسل خراب ہو رہی تھی اور آج جبکہ ماضی میں مکے دیکھانے والا پاکستان کا بے تاج بادشاہ قید ہے اور امریکہ کے مطابق اُسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد آپریشن میں مار کر سمندر برد کریا گیا ہے عام پاکستانی کے حالات زندگی مسلسل بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔
اب امریکہ کامارا ہوا اسامہ زندہ ہویا پرویز مشرف کو پاکستان سے فرار کروا دیا جائے مجھے کیا فرق پڑتا ہے۔ میرے حصے میں آنے والے پاکستان میں کل بھی دہشتگردی، مہنگائی، بدامنی، ناانصافی، عدم استحکام، بے روزگاری اور بے حسی کا راج تھااور آج بھی ہے۔ میرا گھر، کھیت اور کاروبار سیلاب کی نظر ہو چکا بے سروسامان کھلے آسمان تلے بیوی بچوں سمیت بوڑھے والدین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا طلب گار ہوں۔ ڈینگی مچھر امریکی ڈرون طیاروں کی مانند محسوس ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر ڈینگی بخار ہونے کی صورت میں سیب اور انارکا جوس پینے کا کہتے ہیں جبکہ میرے پاس پینے کے صاف پانی کی بھی قلت ہے۔
Musharraf
زاہد سرفراز صاحب کیا آپ کی کہانی میرے دکھوں میں دل بہلانے کے کام آسکتی ہے؟ پرویز مشرف اور اس کے حواریوں نے اسامہ بن لادن کو پناہ دی اور پھر ڈالر لے کر خودہی مخبری کر دی اس واقع کو گزرے کئی سال ہو چکے آج کیوں یکدم جناب کو ضرورت محسوس ہوئی کہ پریس کانفرنس کے ذریعے پوری قوم کو بتا دیا؟ اتنے سال تک خاموش رہنے کی وجہ کیا تھی ؟ آج کس کے اِشارے پر مشرف کے فرار کا انکشاف کیا ؟ زاہد سرفراز صاحب یہ بھی بتائیے کہ آپ کو اس بیان کے عوض کتنے ڈالر ملے اور کس نے دئیے ؟معاف کیجئے گا کہیں آپ کی بھی تو سکندر کی طرح 2 بیویاں تو نہیں، کہیں آپ بھی نفسیاتی ماہر تو نہیں ؟ کہیں آپ بھی سکندر کی طرح اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ تو نہیں کرنے جارہے ؟ میں جانتا ہوں آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے لیکن میں جس ملک کا عام شہری ہوں وہاں کبھی بھی کچھ بھی ممکن ہے سوائے عام آدمی کی زندگی میں بہتری آنے کے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے اصل مسائل کیا ہیں اور اُن کا حل کیا ہے؟ کیا اسامہ کے زندہ ہونے سے پاکستان میں پھیلی بد امنی اور ناانصافی ختم ہوجائے گی؟ کیا اب پاکستان میں سیلاب نہیں آئیں گے؟ کیا پرویز مشرف کے فرار ہونے سے پنجاب سے ڈینگی مچھر کا خاتمہ ہو جائے گا؟ یا مشرف کے قید رہنے سے مہنگائی ختم ہو جائے گی؟ آخر حکومت کب عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانے کی کوشش کرے گی؟ حالات حاضرہ سے ثابت ہو رہا ہے کہ حکمران طبقے نے عوام اور عوامی تواقعات سے ہاتھ کھینچ لئے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کہ انہیں ملک اور عوام کی کوئی پرواہ نہیں۔ ویسے بھی حکمران طبقے کو ملک کی ضرورت صرف حکومت کرنے کیلئے پڑتی ہے ویسے بھی ان کا مستقبل اس ملک سے وابستہ نہیں، ان کے بینک اکائونٹس بیرون ملک میں محفوظ ترہیں۔
ڈالر کے مہنگے اور روپے کی ویلیو کم ہونے سے عوام کو پریشانی جبکہ حکمران طبقے کو خوشی ہوتی ہے وہ اس لئے کیونکہ ان کے کاروبار کوٹھیاں اور جائیدادیں تو زیادہ تر بیرون ملک ہیں اور بینک اکائونٹس میں روپیہ نہیں ڈالر رکھے ہیں۔ عوام کے نام پربیرون ملک سے سود پرقرض لیتے ہیں جبکہ خود دنیا کے امیر ترین لوگوں کی لسٹ میں پہلے نمبر پر آنے کی تگ و دو میں رہتے ہیں۔ پنجاب کے ہونہار وزیر اعلیٰ کی ہی بات کرلیں جو گزشتہ پانچ سال بھی پنجاب کے تخت پر براجمان رہے اور اگلے پانچ سالوں کے لئے بھی حکومت کا تاج اُن کے سر سج چکا ہے۔ اُن کے گزشتہ پانچ سالہ دور اقتدار میں کئی مرتبہ پنجاب کے علاقوں میں سیلاب آئے لیکن اُنہوں نے ممکنہ طور پر ہرسال آنے والے سیلاب کی روک تھام اور بچائو کا کوئی انتظام نہیں کیا جبکہ ان کا کہنا ہے سیلاب متاثرین خود کو اکیلا نہ سمجھیں حکومت اُن کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔
متاثرین سیلاب کی بحالی ان کی پہلی ترجیح ہے اور جب تک سیلاب متاثرین کی مکمل طور پر بحالی نہ ہو جائے چین سے نہ بیٹھنے کا عہد بھی کر چکے ہیں۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اپنے عہد ے کے مطابق سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے ہر ممکنہ اقدامات اُٹھائیں گے۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ سیلاب ہر سال آتے ہیں ہمارے حکمران سیلاب کے پانی کو تباہی پھیلانے سے روک کر محفوظ یعنی ذخیرہ کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے تاکہ اس پانی سے سستی بجلی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کھیتی باڑی میں بھی استعمال کیا جا سکے؟ جہاں تک بات ہے حکومت کے سیلاب متاثرین کے دکھ میں شریک ہونے کی تو شریک ہونا اور بات ہے اور دکھ اُٹھانا اور بات۔ جس کا کھیت، گھر، مال مویشی اور بچے تک سیلاب کے پانی میں بہہ جائیں۔
اُسے کیا فرق پڑتا ہے کہ کون کون اُس کے دکھ میں شریک ہے؟ بڑی بڑی گاڑیوں اور محلات میں بیٹھ کر ہمدردی جتانا آسان ہے لیکن اپنی آنکھوں کے سامنے بیٹیوں کا جہیز، بچوں کی کتابیں، مختصر کہ ساری جمع پونجی سیلاب کے پانی بہتے دیکھنا بہت مشکل کام ہے، اُونچے مقامات پر پناہ لے کر غذا کے ایک ایک نوالے اورپینے کے پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے معصوم بچوں اور بزرگوں کو جینے کا حوصلہ دینا کس قدر مشکل کام ہے یہ سمجھنا حکمران طبقے کے بس کی بات نہیں۔ لیکن آئے دن کوئی نہ کوئی نئی تہلکہ خیز کہانی کسی نئے بندے کی زبانی سنا کر عوام کو بہلانے میں حکمران طبقے کا کوئی ثانی نہیں۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ صرف حکمران ہیں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔