لو 80 کروڑ غریب ہندوستانیوں عیش کرو عیش

Pakistan, India

Pakistan, India

یوں تو جنوبی ایشیا میں صرف پاکستان اور بھارت ہی دوایسے ایٹمی ممالک موجود ہیں جوایک دوسرے کے اندورنی اور بیرونی معاملات میں اپنے اپنے جذبات و جلد بازی اور غصے میں کئے جانے والے فیصلوں اور اقدامات کی وجہ سے ساری دنیامیں بہت مشہور ہیں مگر اِن میں جہاں یہ کمزوری پائی جاتی ہے تو وہیں اِن دونوں ممالک میں سیاسی اور انتخابی حوالوں سے بھی بہت زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے مگراِن تمام باتوں کے باوجود بھی اِن دونوں ممالک میں بس اتنا فرق بھی ضرور پایا جاتا ہے کہ ایک طرف جب پاکستان میں انتخابات کے دن قریب آتے ہیں تو حکمران جماعت آخری لمحات میں (یعنی وقت نزع ) قومی خزانے کو بھر نے کے خاطر اپنے غریب عوام پر مہنگائی کا عذاب نازل کر کے کچھ ایسے اقدامات کر دیتی ہے، کہ عوام بلبلا اٹھتے ہیں۔

اور پھر حکمران جماعت انتخابات ہونے تک اپنی اِس سیاسی بازی گری میں قوم کو الجھائے رکھتی ہے، (اب جیساکہ 22اگست 2013 کے ضمنی انتخابات سے دو، چار روز قبل بھی بجلی کے نرخ میں اضافے کا اعلان کر دیا گیا ہے) اور قوم کو ایک، دو سبزباغ ہی کیا بلکہ بے شمار باغات یہ کہہ کر دکھاتے رہتی ہے کہ اگریہ عام انتخابات میں جیت کر دوبارہ مسندِ اقتدار پر قابض ہوگئی تو پھر یہ ترنت مہنگائی کو کم ہی کیا بلکہ اِسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہی ملک سے ختم کردے گی اور جلد ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے اپنے غریب عوام کو اِس عذاب سے نجات دلادے گی، اور اگرقوم نے اِسے کامیاب نہ کیا تو آنے والی حکومت ملک میں مزید مہنگائی کے درکھول دے گی۔

اور ملک میں مہنگائی بے لگام رہے گی، اور پھر قوم مہنگائی کے دلدل میں دھنستی چلی جائے گی، ہمارے یہاں ایسا بدقسمتی سے گزشتہ 66 سالوں سے ہی ہوتا آیا ہے، اور اللہ ہی جانے ایساکب تک ہوتا رہے گا، یہ تو کوئی نہیں جانتا مگر اتنا ضرور ہے کہ جب تک قوم سوئی رہے گی، اور میرے دیس کے عیار و مکار سیاستدان قوم کو بے وقوف بنا کر اِسے اپنی حکمرانی کے جوتی تلے روندھتے رہیں گے، تو میرے دیس کا ہر محب وطن باسی مفلوک الحالی، اور لاچارگی کے دلدل میں زندہ دفن ہوتا رہے گا، اور اِسی طرح میرے دیس میں پروان چڑھنے والی کئی نسلیں بھی مفلسی اور کسمپرسی کی حالت میں غرق ہوتی رہے گی۔

اب ایسے میں یہاں ضرورت اِس امر کی ہے کہ آج میرے دیس کے ہر فرد کو اپنی بند آنکھیں کھولنی ہوں گیں، اور اِس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہ وطنِ عزیز کے سیاستدان، زمیندار، جاگیردار، وڈیرے، چوہدری، ساہوکار، سرمایہ دار، زرداری اور نواز سمیت جتنے بھی حکمران ہیں سب ہی اپنے اپنے مفادات اور اقتدار کے خاطر ملک کے بیس کروڑ غریب عوام کو مہنگائی کے بوجھ تلے دبا کر غریبوں کی غربت کا سامان پیدا کرتے رہیں گے اور اپنے مفادات اور اقتدار کا حصول چاہتے رہیں گے۔

India

India

جبکہ دوسری طرف ہمارا پڑوسی اور ازلی حریف ملک ہندوستان بھی تو ہے، جس کے حکمران ہندوبنیئے ضرور ہیں، مگراِن کی انتخابی تاریخ اور اِن کی سیاسی روش یہ بتاتی ہے کہ ہندوستانی حکمرانوں کو ہر دور میں اپنے غریب اور مفلوک الحال قوم کی حالتِ زندگی بہترکرنے کی فکررہی اور وہ گاہے بگاہے اپنی قوم کی حالتِ ٹھیک کرنے کے خاطر سنجیدگی سے اقدامات کرتے رہے، اگرچہ پھر بھی ہندوستان میں غربت کے چرچے عام ہیں، آج بھی ہندوستان کے عوام کی اچھی خاصی تعداد دووقت کی روٹی، کپڑے، علاج و معالجہ کی بہتر سہولت، اداویات دیگر آسائش زندگی سے بھی محروم ہے، مگر ہندوستان کے حکمران مسلسل اپنی قوم کی حالتِ زندگی کو بہتر بنانے کے لئے متحرک رہتے ہیں۔

اگرچہ آج ہندوستان میں عام انتخابات ہونے والے ہیں، کچھ کا خیال یہ ہے کہ ہندوستان کے عام انتخابات میں ایک سال یا چندماہ کا عرصہ ہی باقی رہ گیا ہے، ادھر ایسے میں گزشتہ منگل کو دہلی میں ہندوستان کی حکمران جماعت کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی نے قومی خزانے کا منہ یومیہ آمدنی 23 روپے سے بھی کم آمدنی والی اپنی ننگی بھوکی اور سسکتی بلگتی عوام کے لئے کھول دیاہے اور یوں قومی خزانے سے 24 ارب ڈالرکے منصوبے سے 80 کروڑ غریب ہندوستانیوں کے لئے سستے داموں چاول، گندم اور دیگر اناج کی فراہمی کا منصوبہ شروع کر دیا ہے۔

جس کے لئے سونیا گاندھی جی نے ترنت بنیادوں پر ہندوستان میں غریب طبقے سے تعلق رکھنے والی غریب خواتین میں سستے داموں چاول، گندم اور دیگر روزہ مرہ استعمال کے اناج کی وصولی کے لئے خصوصی کارڈ تقسیم کئے، اِس منصوبے کے تحت مستحق افراد کو اناج ایک سے تین روپے فی کلو گرام پر فئیر پرائس شاپس سے دیاجائے گا، معیشت دانوں اور ماہرین اکانومکس کے مطابق سونیا گاندھی کے اِس اقدام سے ہندوستان بھرکی دوتہائی غریب آبادی سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہر ممکن فائدہ پہنچ سکے گا، اور اِس کا فائدہ حکمران جماعت کو انتخابات کے نتائج میں نظر آئے گا۔

جس سے متعلق حکمران جماعت پرامید ہے کہ اِس کے اِس قابلِ تعریف اقدام سے ہندوستان کے غریبوں میں زندگی کی امنگ پیدا ہوگئی ہے، اور اِن 80 کروڑ غریبوں کی خواہش ہے کہ یہ آئندہ انتخابات میں سونیا گاندھی کی جماعت کو ہی پر شاد سمجھ کر ووٹ دیں اور سونیا گاندھی کی پارٹی کو دوبارہ اقتدار کی مسندپر ایلفی لگا کر بیٹھا دیں، تاکہ سونیا گاندھی کی جماعت کی حکمرانی ہندوستان بھر میں قائم رہے، اور ہندوستان کے غریب عوام کی حالتِ زندگی بہتر ہوسکے، جبکہ اِس موقع پر سونیا گاندھی کا خطاب کے دوران کہنا تھا کہ یہ جانتی ہیں کہ اِن کے دیس ہندوستان میں ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ضرور موجود ہے جنہیں دو، ایک کیا بلکہ تینوں وقت کا کھانا نہیں ملتاہے۔

Sonia Gandhi

Sonia Gandhi

اِن کے ملک کے بچے غذائی قلت کا شکارہیں، گزشتہ پانچ سالوں میں شائع ہونے والی رپورٹیں یہ بتاتیں ہیں کہ ہندوستان میں چھوٹے بچوں میں نصف غزائی کمی کا شکارہیں، جس کی وجہ سے بچوں میں شرح اموات بڑھ گیاہے، سونیا گاندھی نے عوا م کو اعتماد دلاتے ہوئے اِس کا اعادہ کیا کہ ہمیں اپنے ملک سے ہرصورت میں غربت کا خاتمہ کرناہوگا جس کے لئے ہمیں غریبوں کی انمول زندگی کا ذمہ داربننا ہوگا، پاکستانی عوام نے یہ واضح فرق ہندوستانی اور پاکستانی حکمرانوں میں محسوس کیا ہے، پاکستانی حکمران اتنخابات سے قبل قومی خزانے کو بھرنے کے لئے اپنے صرف 20 کروڑ عوام کا مہنگائی کی چھری سے گلے یوں کاٹتے ہیں کہ اِنہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں قومی خزانے کو اپنی عیاشیوں کے لئے خالی کر دیا ہوتا ہے۔

جبکہ ہندوستانی حکمران اپنے قومی خزانے کو اپنے عوام کو ریلیف دینے کے لئے کھول دیتے ہیں تاکہ اِن کی عوام کو یہ محسوس نہ ہوسکے کہ اِن کے حکمرانوں نے اپنے عوام کو اپنے دورِ اقتدار کے دوران کوئی ریلیف نہیں دیا،اب یہ اور بات ہے کہ ہندوستانی حکمران انتخابا ت سے قبل اپنے عوام کوریلیف دیتے ہیں مگر دیتے تو ہیں، جبکہ ہمارے پاکستانی حکمران نہ اپنے دورِاقتدار میں ہی عوام کو کسی معاملے میں ریلیف دیتے ہیں اورنہ ہی انتخابات سے قبل کسی معاملے میں عوام کے کاندھوں پر پڑے مہنگائی کا بوجھ ہلکا کرنے کا ارادہ رکرتے ہیں۔

بلکہ یہ تو انتخابات سے قبل ملک میں مہنگائی بڑھانے کے ایسے حربے استعمال کرتے ہیں کہ عوام اِس سے تِلملا اٹھتے ہیں، اور پھر اپنے لئے کسی نئے مسیحا کو تلاش کرلیتے ہیں، اور پھروہ بھی بعد میں اِنہیں ٹر دکھا جاتا ہے، اور اِس طرح پاکستانی عوام کے حصے میں، مہنگائی، غربت، بے روزگار، کسمپرسی، مفلسی اور خودکشی کے سِوا کچھ نہیں آپاتا ہے جبکہ ہندوستانی حکمرانوں کے دلوں میں اپنے عوام کے ساتھ ہمدردی کا ایک ایسارشتہ برقرار ہے جس کا اندازہ ہم اور آپ سونیا گاندھی کے اپنے عوام کے لئے کئے گئے اقدامات سے لگاسکتے ہیں، کہ ہندوستانی حکمران کم ازکم اپنے سارے دورِ اقتدار کے دوران نہ صحیح تو انتخابات سے قبل تو اپنے عوام کے لئے کچھ بہتر کر جاتے ہیں، جبکہ ہمارے یہاں…..؟؟؟

تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com