میں اپنے آفس میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں اپنے آفس سے نکل کر چائے پینے کے لیئے ہوٹل پر چلا گیا۔ وہاں پر پہلے سے بیٹھے کچھ لوگ آپس میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ بھائی دیکھو کہ لو گوں کے ضمیر کتنا مردہ ہو چکے ہیں۔ عطائی اور نان کوالیفائیڈ لوگ ڈاکٹروں کے بھیس میں عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے لگے۔ محکمہ صحت و دیگر متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں کیوں کہ ان کے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں۔
ایک اور آواز آئی کہ جھنگ اور دیگر ملحقہ علاقوں میں نان کوالیفائیڈ اور عطائیوں نے ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کے بڑے بڑے بورڈز لگوا کر ہسپتال قائم کر رکھے ہیں جہاں پر مریضوں کو علاج کی بجائے مزید مہلک اور لا علاج امراض میں مبتلا کر دیا جاتا ہے ان عطا یئوں کے ہاں ایک نئی سرنج کو با ر بار استعمال کر نے اور مضر صحت آلات جراحی کو بھی عیب نہیں سمجھا جاتا اکثر عطایئوں نے زچہ بچہ سنٹر بھی کھول رکھے ہیں۔
ان زچہ بچہ سنٹرز کی حالت بہت تشویش ناک ہے۔ پہلاہ بولا کہ بھائی ان لو گوں کے ضمیر اتنے مردہ ہو چکے کہ یہ اپنے ہی بھایئوں کا خون چوس رہے ہیں کیا ہمارے مذہب اسلا م میں یہی ہے کہ تم اپنے ہی مسلمان بھائی کے ساتھ ایسا سلوک کرو۔ افسوس سد افسوس۔ نہیں نہیں ہمارے مذہب اسلام میں تو ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی ہے ان کے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں کہ یہ عطا ئی چند روپوں کی خاطر اپنے ہی مسلمان بہن بھائیوں کو لوٹ کر ان کو موذی امراض میں مبتلا کر نے میں مصرف ہیں۔
خدا نہ کرے اگر تم میں سے کسی کا باپ ماں بیٹا بیٹی بھائی بہن وغیرہ اگر کبھی کسی دن کسی عطائی کے پاس چلا جائے اور اس کا بھی یہ وہی حال کرے اور وہ مریض مرگ بستر سے موت کے منہ میں چلا جائے ۔ڈر اس وقت سے۔ کہ بعد میں تمہیں پچھتانا پڑئے۔ کہ بعد میں تو افسوس ہی کرتا رہے جائے۔ خودی کی خلوتوں میں گم رہا میں خدا کے سامنے گویا نہ تھا میں نہ دیکھا آنکھ اٹھا کر جلوہ دوستقیامت میں تماشا بن گیا میں۔ پہلا بولا۔ یہاں پر ان پڑھ اور نا تجربہ کار عورتیں ڈاکٹر زاور نرسیں بن کر آپریشن سے بھی گریز نہیں۔
Doctors
کرتیں اور چند ہزار روپے کی خاطر انسانی جان کو خطرے میں ڈال دیتی ہیں۔ ضلع جھنگ میں جہاں پر دیکھو آپ کو جگہ جگہ عطائی ڈاکٹروں کی بھر مار نذر آئے گئے۔ جبکہ محکمہ ہیلتھ خاموش تما شائی کا قردار ادا کر رہا ہے۔ افسوس سد افسوس۔ آج یہ لوگ اپنا فرض بھی بھول چکے ہیں۔ ظلام بحر میں کھو کر سنبھل جا تڑپ جا پیچ کھا کھا کر بدل جا نہیں ساحل تری قسمت میں اے موج ابھر کر جس طرف چاہے نکل جا۔
انسان خیال کرتا ہے کہ اس کو گناہ کرتے ہوئے کوئی نہیں دیکھا رہا۔ لیکن اس کو معلوم نہیں کہ سب سے بڑی پاک ذات اس کو دیکھ رہی ہے۔ بزرگ سنتے تھے کہ ایک با دشاہ کے سات بیٹے تھے بادشاہ بوڑھا ہو گیا تھا ایک دن اس نے اپنے ساتوں بیٹوں کو اپنے پاس بولیا۔ اور کہا کہ یہ ایک ایک مرغا سب لیے جا ئو اور اس کو اس جگہ ہلل کر کے لیے آئو جہاں تم کو کوئی نہ دیکھے اور جو اس امتحان میں کامیاب ہو گیا۔
اس کو میں اپنے تختہ پر بیٹھا دو گا اور اس کو بادشاہ بنا دو گا ۔اس کے سب بیٹے چلے گئے۔ اس کے چھ بیٹے تو واپس آگئے مرغوں کو ذیبح کر کے۔ مگر اس کا ایک بیٹا کتنا عرصہ جنگلوں۔ میدانوں۔ پہاڑوں میں پھرتا رہا بل آخر ایک دن واپس اپنے محل میں آیا اور بادشاہ کو ملا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ بیٹا تم اتنا عرصہ کہا پھرتے رہے ہو۔ تمہارے سب بھائی تو اپنا اپنا مرغا ذبع کر کے لیے آئے تم اسے ہی واپس لیے کر آگئے ہو۔
وہ بولا والد اے محترم میں جہاں بھی گیا مجھے ہر جگہ اللہ تعالی کی ذات نذر آئی۔ اس لیے میں اس مرغ کو واپس لیے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا ہو۔ بادشاہ اپنے اس بیٹے کی بات پر بڑا خوش ہوا اور اس کو اپنے بادشاہی تخت پر بیٹھا دیا اور بادشاہت اس کو دے دی۔ مگر ان عطایئوں کے ضمیر تو مردہ ہے۔ آخر کوئی تو ہو گا جس کا ضمیر زندہ ہو گا۔
اور اس عطایئت سے جھنگ کی عوام کو نیجات دلوائے گا۔ ایک اور آواز آئی کہ ابھی بہت سارے اللہ کے نیک بندے ہے جن کے ضمیر زندہ ہیں۔ مومن کی زبان پر دل کی با ت ہوتی ہے۔ توبہ کی تکلیف سے گناہ کا چھوڑ دینا زیادہ آسان ہے۔کسی کے گرنے پر خوش مت ہوا کرو کیا معلوم کل تیرے ساتھ کیا ہو۔ جھوٹا سب سے پہلے اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ جس نے جھوٹی قسم کھائی اس نے اپنے گھر کو ویران کیا جاری ہے۔