جیلوں پر حملے کس کی نا اہلی؟

Taliban

Taliban

اٹھارہ سو ستاون کی بنی ہوئی چار احاطوں اور چھبیس بیرکوں پر مشتمل سنٹرل جیل ڈیرہ اسماعیل خان کا شمار ملک کی قدیم ترین جیلوں میں ہوتا ہے۔ 29 اور 30 جولائی کی درمیانی شب طالبان کی جانب سے جیل پر حملہ کر کے اپنے ساتھیوں کو جیل سے چھڑوا لیا رات تقریبا ڈھائی بجے تک شہر مسلسل دھماکوں سے گونجتا رہا صبح کے وقت اطلاعات آتی رہیں حملہ آور وں نے چودہ پولیس اہلکاروں سمیت 25 افراد کو زخمی کرنے کے ساتھ ساتھ خطرناک مقدمات میں ملوث اپنے ساتھیوں سمیت درجنوں قیدیوں جن میں چار خواتین بھی شامل ہیں کو نہ صرف رہا کروا لیا بلکہ تقریبا 30 خطرناک قیدی جن کا تعلق تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی، پاڑہ چنار، باجوڑ، پشاور شدت پسند گروپوں سے تھا ان سب کو اپنے ساتھ فرار کروانے میں کامیاب ہوگئے۔

فرار ہونے والے سنگین نوعیت کے قیدیوں میں ڈیرہ اسماعیل خان میں نویں اور دسویں محرم کے ماتمی جلوسوں میں ہونے والے بم دھماکوں کے مرکزی کردار ولید اکبر، تحریک طالبان سے تعلق رکھنے والے عبدالحکیم، حاجی الیاس، محمود خان، حلال خان، رضوان اور دیگر خطرناک قیدی بھی شامل ہیں۔ پیر اور منگل کی درمیانی رات ساڑھے گیارہ بجے کے قریب مبینہ طور پر تحریک طالبان سے تعلق رکھنے والے تربیت یافتہ شدت پسندوں نے جو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس تھے سنٹرل جیل ڈیرہ اسماعیل خان پر دھاوہ بول دیا۔ شدت پسند مبینہ طور پر چودہ سے اٹھارہ گاڑیوں میں سوار ہو کر ڈیرہ شہر میں داخل ہوئے تھے۔ انہوں نے سنٹرل جیل سے ملحقہ نجی ہسپتال کے قریب واقع پولیس کی چیک پوسٹ پر حملہ کرکے قریب واقع بجلی کی ٹرانسمیشن لائن کو دھماکہ خیز مواد سے اڑاک کر اپنی کاروائی کا آغاز کیا۔

حملہ آوروں نے جیل میں موجود پولیس کی بکتر بند گاڑی کے ڈرائیور کو بھی شہید کر کے گاڑی کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ یہ حملہ انتہائی ٹھوس منصوبہ بندی سے کیا گیا تھا حملہ آوروں نے زبردست پلاننگ کے ساتھ مختلف اطراف سے جیل پر حملہ کیا تھا حملہ کے وقت انہوں نے جدید ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا تھا۔ انہوں نے جیل کی ابتدائی دیوار کو دھماکہ خیز مواد سے جگہ جگہ سے تباہ کر دیا تھا۔ دروازوں پر دیسی ساختہ بم اور کلاشنکوف کی فائرنگ کی مدد سے وہ دروازے توڑنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ذرائع کے مطابق حمل آوروں نے جیسے ہی مین گیٹ عبور کر کے نعرہ تکبیر بلند کیا، جیل میں موجود قید ان کے ساتھیوں نے بھی جوابا نعرہ تکبیر کی صدا بلند کی تھی ۔جیل کی قصوری چکی میں کالعدم تنظیموں کے انتہائی اہم ملزامان قید تھے۔ جنہیں حملہ کرکے سب سے پہلے باہر نکالا گیاپھر انھی کی نشاندہی پر چار قیدیوں کو جیل میں ہی قتل کر دیا گیا۔جن کے نام اختر عباس جو سابق ناظم افتخار سلیم کے قتل میں سزا یافتہ تھے۔

فرقہ ورانہ قتل کے دوسرے سزا یافتہ مجرم اسلم مہیڑ اور فرقہ واریت کے جرم میں ملتان سے تعلق رکھنے والے دو قیدیوں ساجد، جمعہ ملنگ شامل ہیں۔ حملہ آوروں نے جیل کی دیوار توڑ کر قیدیوں کو باہر نکلنے کا کہا اور کہا کہ ہم طالبان ہیں آپ لوگ جیل سے باہر آجائیں اسی دوراران طالبان آپس میں میگا فون کے ذریعے سے مسلسل رابطہ میں رہے بعض قیدیوں کے نام لے کر انہیں عام قیدیوں سے الگ کر کے اپنے ساتھ لائے گاڑیوں میں بٹھاتے رہے۔ باقی قیدیوں کو ڈیرہ شہر کے اندر داخل ہو کر فرار ہونے کی ہدایات جاری کرتے رہے۔جیل ذرائع کے مطابق چنٹرل جیل ڈیرہ میں معمول کے قیدیوں کے ساتھ کالعدم تحریک طالبان، لشکر جھنگوی، ہنگو اور باجوڑ میں موجود شدت پسند تنظیموں کے انتہائی اہم قیدی رکھے گئے تھے۔جیل پر حملہ کے ساتھ ہی جیل کے اندر موجود سیکورٹی اہلکاروں نے حملہ آوروں کے خلاف جوابی کاروائی کی مگر جدید ہتھیاروں سے لیس طالبان اور ٹریننگ شدہ کمانڈر کے حملے کا سیکورٹی اہلکار کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکے۔

Police

Police

اس موقع پر پولیس کے پاس اسلحہ کی کمی بھی محسوس کی گئی جبکہ دوسری جانب طالبان ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر بھرپور منصوبہ بندی کے ساتھ حملہ آور ہوئے تھے۔ طالبان مواصلات کے جدید نظام سے ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے۔ شہر کے وسط اور گنجان آبادی میں موجود جیل کے محل وقوع اور رات کی تاریکی سے حملہ آوروں کو فائدہ ہوا تھا۔ حملہ آور دستہ بمبوں اور راکٹوں کا بے دریغ استعمال کرتے رہے۔ اطلاعات کے مطابق جیل میں تقریبا 483 قیدی موجود تھے جن میں 253 قیدیوں کو حملہ آوروں نے فرار کروا دیا جبکہ چار قیدیوں کو قتل کر دیا گیا اور 226 قیدی جیل میں موجود ہیں جن میں سے چار خواتین اور 28 دیگر قیدی واپس جیل میں آگئے۔ واضح رہے کہ خفیہ اداروں کی جانب سے پچھلے سال ہی مختلف جیلوں کو مراسلات بھیجے گئے کہ طالبان جیلوں پر حملے کر کے اپنے ساتھی رہا کروانے کی منصوبی بندی کر رہے ہیں۔اس سلسلے میں مختلف جیلوں کی نشاندہی بھی کی گئی۔

شدت پسندوں کی جانب سے اپنے اہم کمانڈروں اور ماسٹر مائنڈز کی رہائی کے لئے مختلف منصوبے بنائے گئے۔ اس سلسلے میں باقائدہ ایک فورس تشکیل دی گئی جس کا ٹاسک اہم کمانڈروں کی رہائی تھا۔ حملے سے کچھ روز قبل وزارت داخلہ کی جانب سے حملے کی رپورٹ بجھوائی گئی تھی جس کے باوجود سیکورٹی انتظامات میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہ کی گئی۔ اداروں کے پاس موجود تمام تر اطلاعات کے باوجود طالبان نے بنوں جیل پر کامیاب حملہ کیا اور اپنے ساتھیوں کو رہا کروایا اس حملے میں 100 زائد تربیت یافتی جنگجوئوں نے حصہ لیا۔ بنوں جیل سے چھڑوائے گئے قیدیوں میں سب سے اہم کمانڈر عدنان رشید تھے جو طالبان کمانڈر وں کو جیل سے رہا کروانے والی ٹیم کی قیادت کر رہا تھا۔بی بی سی ذرائع کے مطابق اس حملے میں جن قیدیوں کو رہا کروایا گیا ان میں طالبان کے نہایت اہم کمانڈر جو گزشتہ سال ڈیرہ اسماعیل خان میں محرم کو جلوس میں حملے کے مرکزی ملزم تھے۔ ذرائع کے مطابق حملہ آور بارود سے بھری تین گاڑیاں بھی چھوڑ گئے۔

بم ڈسپوزل اسکواڈ کے انچارج کا کہنا ہے کہ 30 سے زائد دھماکے کئے گئے۔ پچاس کے قریب آئی ڈیز کو ناکارہ بنایا گیا جبکہ پندرہ راکٹ کے گولوں سمیت ایک خود کش جیکٹ بھی ملی ہے۔ تحقیقاتی صحافی سید بدر سعید اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں۔ جیلوں میں حملہ کرنے کے لئے کچھ شدت پسند پنجاب میں بھی داخل ہو چکے ہیں۔ اگر پنجاب کی جیلوں کا جائزہ لیا جائے تو بیس جیلوں میں بائیس ہزار قیدیوں کی گنجائش ہے۔ لیکن اس وقت ان میں 62 ہزار قیدی رکھے ہوئے ہیں۔ ان 62 ہزار قیدیوں کی نگرانی کے لئے صرف پندرہ ہزار اہلکار تعینات ہیں۔ پنجاب بھر کی اہم جیلوں میں دہشت گردی اور فرقہ ورانہ واقعات کے اہم ملزم بھی موجود ہیں۔جن میں سے صرف 71 ملزمان کو سزا ئیں سنائی گئی ہیں۔ تین سو کے مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ یہ تین سو قیدی عدالتوں میں لے جائے جاتے ہیں۔ان کی نقل حرکت پر اتنی سیکورٹی نہیں ہوتی جتنی ان سخت حالات میں ضروری ہے۔ اس نقل و حرکت کے دوران بڑے پیمانے پر کاروائی کے امکانات ہیں ان کے ساتھی مصروف شاہرائوں پر چھروانے کے لئے کاروائی کر سکتے ہیں۔

ریکارڈ کے مطابق اس وقت چنٹرل جیل راولپنڈی میں فرقہ ورانہ قتل و غارت کے مقدمات میں 66 قیدی موجود ہیں۔ اڈیالہ جیل میں قید ہائی پروفائل قیدیوں میں بینظیر بھٹو قتل کیس میں ملوث پانچ ملزمان کے ساتھ ممبئی حملہ کیس کے ملزمان ذکی الرحمان لکھوی، حماد امین صادق، عبدالواجد، شاہد جمیل ریاض، یونس انجم، جمیل احمد اور مظہر اقبال جیسے اہم قیدی شامل ہیں۔ سنٹرل جیل فیصلہ آباد میں فرقہ واریت کے 12 جبکہ دہشت گردی کے 37 قیدی موجود ہیں۔ سنٹرل جیل میانوالی میں فرقہ واریت کے 16 اور دہشت گردی کے 10 قیدی موجود ہیں۔ سنٹرل جیل ڈی جی خان میں فرقہ واریت کے 7 اور دہشت گردی کے 8 قیدی موجود ہیں۔ سنٹرل جیل ملتان میں فرقہ واریت کے 42 اور دہشت گردی کے 4 ملزامن موجود ہیں۔ بہالپور جیل میں فرقہ واریت کے 15 اور دہشت گردی کے 19 قیدی ہیں۔ اسی طرح سنٹرل جیل لاہور میں فرقہ واریت کے 23 اور دہشت گردی کے 50 انتہائی خطرناک قیدی موجود ہیں۔اس کے علاوہ ڈسٹرکٹ جیل لاہور میں فرقہ واریت کے دو قیدی موجود ہیں۔

جیلوں پر حملوں کے بڑھتے ہوئے واقعات اور جیلوں کے سیکورٹی انتظامات پر بہت سے سوال اٹھ رہے ہیں۔ جیلوں کی طرف جانے والے راستوں پر واقع سیکورٹی چیک پوسٹیں کیا کام کر رہی ہیں؟ اطلاعات کے باوجود جیلوں کے حفاظتی انتظامات بہتر کیوں نہیں کئے جارہے؟ جیلوں میں قیدیوں کی مواصلاتی ذرائع تک رسائی کس کی مدد سے ہو رہی ہے؟ کیا ہر واقعہ کے بعد چند اہلکاروں کی معطلی کر کے ان واقعات کو روک سکتے ہیں۔ ان واقعات کی روک تھام فائل ورک نہیں عملی اقدامات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

Farrukh Shahbaz Warraich

Farrukh Shahbaz Warraich

تحریر : فرخ شہباز وڑائچ