شروع میں تو ہم سمجھتے تھے کہ عمران خان جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کی سیاست کے بھی شدید مخالف ہیں اور وہ ملک میں کوئی واقعئی انقلابی تبدیلی لانے کے خواہشمند ہیں ان کے لب و لہجہ سے بھی کچھ کچھ سچائی کا گمان ہوتا تھا۔ پھر قوم انہیں ایک دوسرے حوالے” کرکٹ ”سے بھی اپنا ہیرو مانتی تھی گوکہ ان کی گالی گفتار اور لب و لہجے سے اُن کے خوشامدیوں کے علاوہ اُس وقت بھی سب ہی پریشان رہتے تھے۔ قوم سجھتی تھی کہ ماضی کی غلطیوں کو بھول کر اب وہ ایک قومی رہنما کے طور پر نمودار ہو رہے ہیں اور ان کا ماضی کا سخت رویہء اور لب و لہجہ اب تبدیل ہو چکا ہوگا …. مگر جب اُن کے بیانات اور لب و لہجہ پر لوگوں نے غور تو پتہ چلا کے سونامی کے زعوم میں اُن کا لب ولہجہ اور اور بھی شدت اختیار کر چکا ہے۔ در گذر اور ٹولرینس کا کہیں دور تک بھی شائبہ تک دکھائی نہیں دیتا ہے۔
حالات و وقعات عمران خان کو قومی ہیرو کے بجائے مائنس زیرو دکھانے لگے ہیں۔ ہم بھی ان کے ابتدائی سیاسی نعروں کے سحر میں آیا چاہتے تھے مگر اُن کے بعد کے سخت ترین روئے اور لب و لہجہ نے ہمیں اپنی پچھلی سوچ سے رجوع کرنے کو کہا اور ہم سخت گیر اور اڑیل لیڈرشپ کے سحر سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اندر سے ایسا لگتا ہے کہ وہ پرویز مشرف کے مخالفین میں سے نہ تھے بلکہ جاننے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ” وہ بھی پرویز مشرف کی باقیات میں سے ہی ہیں”عمران خان پرویز مشرف کے ساتھ اس کی آمریت کا حصہ 2002 سے 2007تک رہے اور فوجی آمریت سے چمٹے رہے۔
جو جمہوریت کا قاتل تھااور ہمیشہ سے جمہوری کلچر کا شدید مخالف تھا۔ وہ ایسا آمر تھا جو اپنے جیسے یا اپنے سے بڑے آمر کو برداشت ہی نہیں کر سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مشرف دور میں وزارت عظمیٰ کی ہُما ان کے کان پر پر مارکر یہ جا، وہ جا…. یہ عہدہ ان کے ہاتھوں میں دئیے جانے سے پہلے ہی اُن سے چھین لیا گیا۔ پرویز مشرف انہیں اٹھانا چاہتے تھے کیونکہ ایک تو وہ ان کے مذہبی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور دوسرے یہ کہ اُس وقت تک وہ کوئی سیاسی فیگر نہ تھے۔ اس ماحول میں عمران خان اپنا کلیجہ مسوس کے رہ گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ بعد کے دنوں میں اُن کے بیانات کی وجہ سے اُن کی سونامی کا حصہ تو بنے مگر انہیں بھی اخروٹ لب و لہجہ اختیار کرنا پڑ گیا ہے۔
Imran Khan
2012میں اینٹی ڈرون پالیسی کا عمران خان نے اعلان تو کیا مگر کہیں بھی بھرپور کاروئی اس ضمن میں سوائے نعرے بازیوں کے دیکھنے میں نا آئی۔ کراچی میں بھی انہوں نے اس ضمن میں ایک ڈرامائی احتجاج شروع کیا تھا اور نیٹو سپلائی روکنے کا جھانسہ قوم کو دیا تھا۔ اُس سڑک پر ان کا جلسہ چل رہا تھا جہاں سے عوام کو لیکر W11 گذرتی تھی یہ عوامی شاہرہ بلاک کر کے عوام کی روزی روٹی کے دروازے تو بند کئے گئے مگر برابر کی ہی کی سڑک سے دھڑلے کے ساتھ نیٹو سپلائی کے کارواں گذر رہے تھے انہیں روکنے کے جھانسے کے باوجود کہیں روکا نہیں گیا۔ گویا سیاست کے میدان میں وہ بھی کراچی کے عوام کو، کھلی آنکھوں دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی۔
کراچی کے برگر گروپ نے جس کا وہ خود بھی حصہ ہیں انہیںِ نعروں کی زد میں آخر ایک سیٹ پر کامیابی عطا کر دی تھی۔ ہم آج یہ بات دعوے سے کہتے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں وہ کراچی سے کوئی ایک بھی سیٹ جیتنے کے اہل نہ ہونگے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے مفادات کے خلاف بات کر کے وہ کوئی بہت بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں تو یہ اُن کی بھول ہے۔ اُن کا ایک انوکھا موقف قومی مفادات کے خلاف بھی قوم سن چکی ہے۔ وہ 1971 کے معاملات کے ضمن میں پاکستان کے باغیوں کی حمایت کرتے دکھائے دیتے ہیں۔
حالات چاہے جو بھی تھے جن لوگوں نے ہندوستان کے ساتھ مل کر پاکستان کی یکجہتی کو ناقابل تلافی نقصان پہچایاان کے لئے عمران خان پاکستان کے قومی موقف کے بر خلاف نرم گوشہ رکھتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان 1971 کے معاملے میں بنگلہ دیش اور اس کے عوام سے معافی مانگے!!!دوسری جانب وہ قوم کو طالبان سے گفتگو کا بھی جھانسہ دیتے رہے ہیں۔ مگر خیبر پختون خواہ میں ان کی حکومت بنے سو دن کا عرصہ گذر چکا ہے کوئی ایک کام بھی ان لوگوں نے طالبان سے بات چیت کیلئے نہیں کیا… صرف نعرے بازی اور ہڑبونگ کے سوائے اس پارٹی کے پاس کچھ دکھائی نہیں دیتا ہے۔
عمران خان فضل الرحمان کی کے اس فتوے کی نفی کیوں نہیں کرتے کہ وہ قادیانی ہیں….اور قادیانی گروہ کے وہ پسندیدہ رہنما ہیں۔ اگر فضل الرحمان کا فتویٰ جھوٹا ہے تو وہ اس کے خلاف عدالت عالیہ کیوں نہیں گئے؟؟؟ قوم اس سوال کا جوب بھی عمران خان سے مانگتی ہے۔ اب قوم کسی بھی شکل میں پاکستان کے عوام کی تقدیرسے کسی کو نہیں کھیلنے دے گی۔لوگ ایک عرصہ سے یہ بات چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ عمران خان یہودیوں کی ایجنٹی کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو انہیں اپنے رویئے پر نظرِ ثانی کرنا ہوگی۔ سوشل میڈیا اور لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد یہ کہہ رہی ہے کہ میڈیکل چیک اپ کے بہانے وہ انگلینڈ میں اپنے یہودی آقائوں کی آشیرواد لینے کے لئے نکل پڑے تھے کیونکہ انکے ہیرو پر پاکستان میں افتاد آیا چاہتی ہے۔
Blucstan High Court
اپنے اس کامیاب دورے کے بعد جب وہ پاکستان لوٹے تو انہوں نے عدالتِ عظمیٰ سے پنگے بازی شروع کر دی۔ کیونکہ بلوچستاں ہائی کورٹ نے بے نظیر قتل کیس میں ان کے محسن کو بلوچستان طلب کر لیا تھا۔ان کے اور ان کی پارٹی کے لوگوں کے رویئے سے ایسا لگتا ہے کہ ملک میں انارکی پیدا کر کے یہ لوگ ایک مرتبہ پھر ملک میں مارشل لاء کے دروازے کھولنے کی بھر پور کوششیں کرتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی سونامی ان کی حرکتوں کی وجہ سے بحرِ عرب میں غوطہ زن نظر آرہی ہے۔ عوامی سونامی کا جو نعرہ انہوں نے عوام کو دیا تھا وہ سونامی تو خود عمران خان کی پی ٹی آئی کو ہی موجودہ ضمنی الیکشن میں بہا کر لے گئی۔
اب کیا ہے، ہائے اُس زودپشیماں کا پشیماں ہونا!!! عمران خان کی سیاسی بصیرت سے لوگ یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ وہ اور اُن کے پیروکار دھونس دھمکیوں کی سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ گذشة الیکشن کے نتائج ان سے ان کے حواریوں سے ہضم نہ ہوے اور انہوں نے لاہور اور کراچی میں سڑک چھاپ سیاست کا آغاز کر دیا تھا۔ ان کی اس حماقت کے نتیجے میں ان کی ایک رہنما بھی کراچی میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں!!!
موجودة ضمنی الیکشن پر کہیں سے انگلی نہیں اٹھی مگر سونامی کے دوش پر چلنے والی پارٹی کے لوگوں کو اس میں بھی کیڑے نکالنا تھے اور کیڑے نکال کر ملک کی پر امن فضاء کو مکدرکرنے کی کوشش میں لاہور کے مال روڈ پر سڑک چھاپ سیاست کا سونا میں بہہ جانے والوں نے پھر آغاز کر دیا ہے۔ یہی لوگ سجھتے ہیں کہ ایجی ٹیشن کی اور دھونس دھمکی کی سیاست ست سے میدان مارلیں گے۔ پی ٹی آئی یہ تیرا اندازِ سیاست عجب تماشہ دکھاتا ہے سبھوں کو!!!
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir4khurshid@gmail.com