٨٦ سالہ قیدی قوم کی مظلوم بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکی جیل کے اندر سے ظلم کی داستان بیان کرتے ہوئے اپنی فیملی کو اطلاع دی کہ اُس کوجیل کے گارڈنے مئی ٢٠١٣ ء میں سر پر چوٹ ماری اس چوٹ پر میں بیہوش ہو گئی اور اس دوران امریکہ کے نام نہاد تہذیب یافتہ وحشی گارڈنے میرے ساتھ جنسی جبر کیا۔ عافیہ نے اپنی وکیل ٹینا فورسٹر کو بتایا جس نے امریکی حکومت سے احتجاج کیا ایف بی آئی تحقیق کر رہی ہے ( جس تحقیق کا کچھ بھی نہیں ہونا)وکیل کے ذریعے پاکستانی سفارت خانے کو لیڈی ڈاکٹر سے معائنے کی درخواست کی۔
سفارتی عملے نے امریکی خوف کی وجہ سے انکار کر دیابلکہ امریکی حکومت کی طرفداری شروع کر دی یہ واقعہ ہم نے خاص کر اس لیے بیان کیا ہے کہ ٢٨ اگست٢٠١٣ کو کیبنیٹ کی میٹنگ ہو رہی ہے اور اگر ہمارے حکمرانوں کے دل میںذرا سی بھی غیرت ہے تو قوم کی مظلوم بیٹی کو امریکی حکومت سے واپس اپنے ملک میں واپس لانے کی سمری جو ان کے ایجنڈے سیریل نمبر٥ پر ہے منظور کرے اور اسے امریکی غنڈوں سے نجات دلائیں۔
اس دکھ بھری کہانی کے واقعات تو بہت زیادہ ہیں مگر مختصر کچھ اس طرح ہیں کہ امریکہ کی عدالتی بے انصافی کے خلاف دنیا کے ٦٢ سے زائد ملکوں میں عافیہ مومنٹ کی انچارج ایک بے سہارا عورت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی انتھک کوششوں کی وجہ سے مظاہرے ہوئے۔ اس وجہ سے امریکا کی عدلیہ پر اس کے اپنے ہی ملک میں لوگ خلاف ہو گئے عدالت عافیہ کو دہشتگرد ثابت نہ کر سکی تھی صرف اس کے سپاہیوں کو زخمی کرنے کی وجہ سے( جس کا عافیہ نے عدالت میں انکار کیا تھا۔
٨٦ سال قید تنہائی کی سزا سنائی تھی ساتھ ہی ساتھ عافیہ مومنٹ کی جانب سے پاکستان بھر میں ملک گیر احتجاج کیا گیا ملک کی ساری سیاسی پارٹیوں، سول سوسائٹی، وکلا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس پر احتجاج کیا بڑ ے بڑے مظاہرے کئے گئے پاکستان کی عدلیہ نے بھی ڈاکٹر فوزیہ کی پیٹیشن پر فیصلہ سنایا۔ ١٣ جولائی ٢٠١٣ء کو سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کو حکومت پاکستان کو حکم دیا ہے کہ ریپٹریشن (قیدی کا تبادلہ کا قانون)پر ٹھوس قدم اٹھائے اور ڈاکٹر عافیہ کو واپس پاکستان لائے گو کہ حکومت الیکشن میں مصروفیت کی وجہ سے اس آڈر پر کوئی کاروائی نہیں کی۔
U.S.
اب پارلیمنٹ کی کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ عالمی پریشئر پر امریکہ دنیا میں بہت ہی بدنام ہوا جس کا اظہار امریکی نمائندہ پاکستان میں کچھ ماہ پہلے کر چکا ہے۔امریکی حکومت اس امر پر راضی ہو گئی ہے کہ فیس سیونگ کے عوض وہ عافیہ کو پاکستان کے حوالے کرنے پر تیار ہے کہ وہ اپنی باقی سزا پاکستان کی کسی جیل میں گزارے اس پرورثاء اور عافیہ سے وکیل کے ذریعے تحریری رضا مندی حاصل کر لی گئی ہے۔امریکہ کی اس تجویز کو حکومت پاکستا ن کی وزارت خارجہ نے لاء منسٹری کے حوالے کیا کہ وہ قانونی پوزیشن واضح کرے۔
لاء منسٹری نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور وزارت خارجہ کو واپس کاروائی کی لیے بھیج دیا اب وزارت خارجہ نے اس تجویز کو کیبنیٹ کے سامنے رکھنے کے لیے بھیج دیا اور کیبنٹ کی میٹنگ ٢٨، اگست ٢٠١٣ ء کو ہونا ہے اس میں کیبنیٹ اگر اسے پاس کر دیتی ہے تو ضروری کاروائی کے بعد عافیہ ہفتے بھر کے اندر واپس پاکستان کی کسی بھی جیل میں سزا کانٹنے کے لیے واپس آسکتی ہے ذرائع نے اس پر تبصرہ کرتے کہا ہے کہ اگر نواز شریف سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو کیبنیٹ سے پاس کروا دیتے ہیں تو یہ عوام کے دل جیتنے کا بہترین موقعہ ہے۔
کیونکہ کہ پوری قوم کا مسئلہ ہے اور برنیگ ایشوہے نواز شریف اس سے قوم کے دل جیت سکتے ہیں لہٰذا اس موقعے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس تجویز کو کیبنٹ سے منظور کروائے اورجو آگ گذشتہ حکومت نے جو عوام کے دلوں میںلگائی تھی جس کی وجہ سے اس کا تختہ ہو گیا تھا اور اقتدار ن لیگ کو ملاقوم نواز حکومت سے ریلیف کے انتظار میں تھی۔ مگر نواز شریف حکومت نے مزید آگ لگا دی۔
Infalation
٢ ماہ کی کارکردگی پر پوری قوم چیخ اُٹھی ہے ۔غریب عوام دشمن بجٹ، سیلز ٹیکس میں اضافہ ،پٹرول گیس کی قیمتوں میں اضافہ، لوڈ شیڈیگ ٥ سال تک موجودہ حالت میں رہنے کی باتیں، لا اینڈ آڈر میں پہلے سے زیادہ خرابی، کراچی میںجن کو دہشت گرد اور ٹارگٹ کلنگ کا ذمہ دار ٹھہراتے تھے بیرونی اشارے پر ان کے ووٹوں کی ضرورت نہ ہونے کے باوجود دوستی کی۔ مہنگائی میں بے انتہا اضافے پر پوری قوم سراپہ احتجاج بنی ہوئی ہے پورے پاکستان میں جگہ جگہ مظاہرے ہو رہے ہیں قوم اس فیصلے سے یہ سارے غم اور دکھ بھول جائے گی۔
قارئین ! اب عوام منتظر ہیں کہ نواز شریف حکومت بالغ نظری کا مظاہرہ کرتی ہے اور اس موقعے سے فائدہ اُٹھاتی ہے یا پچھلی حکومت کی طرح نااہلی دکھاتی ہے ہماری دعاہے کہ اللہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو صلیبیوں کی جیل سے چھٹکارا دے۔ پاکستان جس کی وہ شہری ہے منتقل ہو۔ پاکستان میں اللہ کوئی نہ کوئی سبب مہیا کر دے گا اور مظلومہ امت مسلمہ اپنے بچوں احمد اور مریم سے مل جائے گی ۔اللہ اس مظلومہ کا حامی و مدد گار ہو آمین۔ تحریر: میرافسر امان ا ی میل : mirafsaraman@gmail.com