سینیٹر مشاہد حسین سید کا افغان صدر کرزئی کے دورہ پاکستان کا خیرمقدم، دور رس نتائج حاصل ہونگے، مشاہد حسین سید
Posted on August 27, 2013 By Geo Urdu اسلام آباد
اسلام آباد: سینیٹر مشاہد حسین سید کا افغان صدر کرزئی کے دورہ پاکستان کا خیرمقدم، دور رس نتائج کا حامل دورہ خطے میں امن کے حوالے سے پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے سینیٹر مشاہد حسین کی سربراہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع و دفاعی پیداوار 9 ستمبر کو کابل کا دورہ کرے گی جس میں افغان پارلیمنٹ کے اراکان سے ملاقات کی جائے گی،سینیٹر مشاہد حسین سید کا پاکستان چائنہ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام پاکستان افغانستان اور چین کے مابین تعلقات پر خصوصی تقریب سے خطاب انہوں نے کہا کہ: افغان صدر حامد کرزئی کا حالیہ دورہ پاکستان دور رس نتائج کا حامل ہے، دورے کے نہ صرف خطے پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔
بلکہ یہ افغانستان سے نیٹو افواج کی ممکنہ واپسی کے پس منظر میں پاکستان کی خطے میں امن کے حوالے سے اہمیت بھی اجاگر کرتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان چائنہ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ سینیٹر مشاہد حسین سید نے پاکستان افغانستان اور چین کے مابین تعلقات پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے حال ہی میں بیجنگ میں منعقدہ تینوں ممالک کے سرکردہ تھنک ٹینکس کے مابین سہ فریقی اجلاس کی تفصیلات سے بھی شرکاء کو آگاہ کیا اوراعلان کیا کہ 9 ستمبر کو سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے اراکان افغان دارالحکومت کابل کا دورہ کریں گے جہاں وہ افغان پارلیمنٹ کے اراکان سے تبادلہ خیال کریں گے۔
پاکستان افغانستان اور چین کے مابین تعاون پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے اور اکیسویں صدی کو بجا طور پر ایشیائی صدی قرار دیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ ہمسائے چین کے کردار کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا بالخصوص ان حالات میں جب آئندہ سال افغانستان سے امریکی و نیٹو افواج کی ممکنہ واپسی زیربحث ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین نیعظیم جنوبی ایشیا کے حوالے سے مزید کہا کہ گریٹر ساؤتھ ایشیا میں چین، افغانستان، میانمر اور ایران کو بھی شامل کیا جائے تاکہ یہ ممالک توانائی، معشیت اور تعلیم کے میدان میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں اور اس سلسلے میں سرمایہ کاری، تجارتی و ثقافتی تعاون کو بڑھاوا دینے کی ضرورت ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے خطے میں تجارتی سرگرمیوں کو تیزی سے فروغ حاصل ہوگا اور باہمی طور پر منسلک ہو جانے سے خطے کے عوام کو ترقی و خوشحالی کے بہترین مواقع میسر آئیں گے۔اس موقع پر جناح انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ رضا رومی نے بھی پاکستان افغانستان اور چین کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا اور خطے کی توانائی ضروریات، دہشت گردی و انتہا پسندی اور گوادر بندرگاہ کے مستقبل کو باہمی تعلقات کی بہتری کیلئے اہم عوامل قرار دیا۔ انکا کہنا تھا کہ خطے میں جاری گریٹ گیم کا بنیادی مقصد عسکری برتری نہیں بلکہ انرجی ذرائع پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔ گریٹر ساؤتھ ایشیا پر تبصرہ کرتے ہوئے رضا رومی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جاری شورش، ایران تا بھارت متوازی چھابار پورٹ اور بلوچستان میں ذرائع نقل و حرکت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سابق سفیر اکرم ذکی نے پاکستان افغانستان اور چین کے مابین تعلقات کو تاریخی حوالہ جات کی روشنی میں بیان کیا اور کہا کہ حالیہ پیش رفت میں انرجی تعاون اور انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کا اہم کردار ہے۔
سینیٹر مشاہد حسین سید نے شرکاء کو آگاہ کیا کہ رواں ماہ بیجنگ میں پاکستان چائینہ انسٹی ٹیوٹ اور چائنہ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل سٹدیز کے زیر اہتمام سہ فریقی اجلاس میں چینی مندوب نے افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج کی موجودگی کی پرزور مخالفت کی ہے جبکہ افغان مندوب نے انکشاف کیا تھا کہ سال 2014 نیٹو افواج کی مکمل واپسی کا نہیں بلکہ افواج میں کمی کا سال ثابت ہو گا کیونکہ افغان حکومت اور امریکہ کے درمیان 20 ہزار غیرملکی افواج کے قیام کا معاہدہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔