15 اگست کی شام کو اسلام آباد کی شاہراہ دستور کے قریب ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس سے اسلام آباد کی پولیس اور متعلقہ سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر ہمیشہ کے لیے ایک دھبہ سا لگ گیا۔ سکندر نامی ایک شخص گاڑی میں بیوی بچوں کو بٹھائے شاہراہ دستور کی جانب آرہا تھا ٹریفک پولیس کے اہلکار نے رکنے کا اشارہ کیا جس پر سکندر نے گاڑی روکنے کی بجائے بھگا دی اور جب پویس نے پیچھا کیا تو اس نے پولیس کی سمت فائرنگ شروع کر دی جس سے پولیس اہلکار سہم سے گئے۔ اس کے بعد سکندر نے گاڑی سڑک کے درمیان کھڑی کر دی اور باہر نکل کر ارد گرد فائرنگ شروع کر دی اور پولیس کو قریب آنے سے منع کرتا رہا اور اس دوران انہیں اور گورنمنٹ کو دھمکیاں اور گالم گلوچ بھی کرتا رہا۔اتنے میں میڈیا کے لوگ اس علاقے میں کوریج کرنے پہنچ گئے اور ہر نیوز چینل نے براہ راست نشریا ت عوام تک پہنچانا شروع کر دیں۔
اس طرح یہ واقعہ طول پکڑتا گیا اور چند منٹوں کا کام پانچ گھنٹوں میں ہوا، اس پورے عرصے میںپولیس بظاہر اس کو پکڑنے کے طریقے تلاش کر رہی تھی اسی دوران وفاقی وذیر داخلہ چوہدری نثار صاحب نے حکم دیا کہ اس کو زندہ گرفتار کیا جا ئے اسی وجہ سے سکندر کو پکڑنے میں اتنا زیادہ وقت لگا اس دوران ملزم گاڑی میں بیٹھ کر مزے سے سگریٹ اور کولڈ ڈرنک پیتا رہا جبکہ اس کی بیوی اس کے اور پولیس کے درمیان مزاکرات کا کام کرتی رہی۔اس نے ایک کاغذ پر لکھ کر دیا کہ اس کے کچھ مطالبات ہیں جس میں اس حکومت کا خاتمہ، شرعی نظام کا نفاذوغیرہ شامل تھے۔ ملزم کے مطالبات تو مانے نہیں گئے مگر آخر کار پاکستان پیپلز پاڑٹی کے رہنما زمرد خان نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے گرفتار کرا دیا۔اس سارے واقعی کی کوریج عوام تک لمحہ با لمحہ پہنچائی جاتی رہی اور عوام بڑی دلچسپی سے دیکھتی رہی جیسے کسی فلم کی شوٹنگ ہو رہی ہو۔
قارئیں اب چلتے ہیں تصویر کے دوسرے رخ کی جانب۔ انتہائی موئتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اسلام آباد والا واقعہ جان بوجھ کر ایک خاص واقعہ سے توجہ ہٹانے کے لیے رچایا گیا تھا۔ بتایا جا رہا ہے کہ عرب کے شہر شام میں پاکستان سے طالبان جہاد کرنے گئے ہوئے تھے جنہیں وہاں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور اور بہت بڑی تعداد میں تحریک طالبان پاکستان کی لاشو ں کو پاکستان بھیجا گیا۔ اسی طرح ایک نیوز ویب سائٹ سے معلوم ہوا ہے 15 اگست کی شام عین اس وقت جب سکندر والا واقعہ پیش آرہا تھا بینظیر انٹر نیشنل ائیرپورٹ پر شام سے طالبان کی لاشوں سے بھری ایک فلائٹ آئی تھی جس میں 100 سے زیادہ لاشیں موجود تھیں جنہیں اسلام آباد ائرپورٹ سے پاکستانی حکام کے حوالے کیا گیا جبکہ اس وقت پاکستانی میڈیا کا کوئی بھی شخص ائرپورٹ پر اس معاملے کی کوریج کرنے کے لیے موجود نہ تھا۔
Pakistan Taliban
اس طرح تمام لاشوں کو فلائٹ سے اتار کر شناخت کرنے کے بعد فوراَ ہی ان کے متعلقہ علاقوں میں بھیجا گیا کیوں کہ سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ ائیر پورٹ پر شام کی طرف سے بھیجی جانے والی لاشوں کی خبر بریک نہ ہو اور ایسا ہی ہوا کیونکہ میڈیا نے اس وقت سکندر والے ڈرامے کو طول دیا ہوا تھا جو کہ لاشوں کی وصولی کی خبر بریک نہ کرنے کے لیے رچایا گیا۔ ایک پاکستانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق لاشوں کی منتقلی صوبہ خیبر پختونخوا کے ہزارہ کے علاوہ، ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں درجنوں لاشیں منتقل کی گئی۔صوبہ بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ اور مستونگ میں بھی لاشیں بھیجی گئی،اسی طرح صوبہ پنجاب کے ضلع جھنگ اور سندھ کی شہ رگ کراچی میں بھی درجنوں لاشیں منتقل کی گئی۔ سکندر والے ڈرامے کو اس وقت ختم کیا گیا جب ائیرپورٹ پر یہ سارا کام ختم کر دیا گیا تھا اور لاشیں مختلف علاقوں میں بھیجی جا چکی تھی۔
جس کی کوریج صرف ایک لوکل چینل نے کی کیونکہ باقی نیوز چینل کا کوئی نمائندہ ائیر پورٹ پر موجو نہ د تھا۔ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ لاشوں کی تدفین خفیہ رکھی گئی اس کی خبر بھی منظر عام پر نہیں لائی گئی۔ قارئین اب اگر اندازہ کیا جائے تو اسلام آباد کا واقعہ جعلی اور جھوٹ پر مبنی تھا جسے خود ررچوایا گیا جس کا مقصد طالبان کی شامی حکام سے لاشوں کی وصولی کی طرف سے توجہ کو ہٹانا تھا اور میڈیا کوا ئیر پورٹ سے اور اس خبر سے دور رکھنا تھا تاکہ آرام سے ان لا شوں کی شناخت کر کے متعلقہ علاقوں میں بھیجا جاسکے۔اگر ائیر پورٹ پر میڈیا کے لوگ موجود ہوتے اور وہ جب لاشوں کی وصولی کی خبر دیتے تو سب سے پہلے پاکستان کی گورنمنٹ بدنام ہوتی جو پہلے ہی دہشت گردوں کے خلاف حالت جنگ میں ہے اور اوپر سے انہی دہشت گردوں کی شام کے حکام سے لاشوں کی وصولی بھی کی شاہد اسی لیے سکندر والے واقعے کو طول دیا گیا اور میڈیا نے اس کی گھنٹوں براہ راست نشریات چلائیں۔
قارئین ضروری نہیں سکندر والے ڈرامے کے پس پردہ یہ واقعہ ہوا ہو کیونکہ اس کے کی کوریج صرف ایک شیعہ پوسٹ نامی نیوز ویب سائٹ پر آئی ہے۔ اگر ڈرامہ اسلام آباد کے پس پردہ یہ نہیں ہوا تو ممکنہ بات ہے کہ کوئی اس سے ملتا جلتا واقعہ پیش آیا ہو۔ اس حیرت انگیز انکشاف کا بھانڈا سب سے پہلے ایک ویب سائٹ نے پھوڑا۔ اب عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیسے انہیں اور پورے پاکستانی میڈیا کو بیوقوف بنایا گیا اور یوں یہ سب ڈرامہ رچایا گیا۔ میڈیا جو اپنے آپ کو بہت تیز اور سب سے پہلے سب سے آگے اور ریٹنیگ کی دوڑ میں ہر وقت لگا رہتا ہے کس طرح ان کی آنکھوں میں بھی دھول جھونکی گئی۔
کس طرح یہ پوری طرح ایک غیر حقیقی سکندر والے واقعہ کے پیچھے پاگل ہوتا رہا ،جبکہ سب یہ بھی کہتے رہے کہ یہ تو محض ایک ڈرامہ ہے۔ اس ڈرامے کی اصل حقیقت کیا ہے اس کی طرف کسی نے بھی توجہ نہیں دی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے ڈرامے عوام کے مسائل سے توجہ ہٹانے سے لے کر ملکی سطح پر پیش آنے والے اندوہناک واقعات ہونے تک رچائے جاتے رہیں گے اور پاکستان کی معصوم عوام کو بیوقوف بنانے کو سلسلہ جاری رہے گا جب تک کہ عوام خود باشعور نہ ہو جائیں اور میڈیا اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھے گا۔