وزیراعظم کا قوم سے پہلا خطاب مثبت اور فکر مندانہ ہونے کے باوجود عوامی اُمنگوں کی ترجمانی نہ کر سکا۔ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے اپنے خطاب میں ملک کو درپیش مسائل کابڑے ہی غورو فکر کے ساتھ ذکر کیا لیکن اُن کے حل کے لئے کوئی حتمی حکمت عملی پیش نہ کر سکے۔ عسکریت پسندوں کو مذاکرات کی دعوت اور تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے کر قومی پالیسی بنانے کی باتیں تو گزشتہ پانچ سال پیپلزپارٹی کی حکومت بھی کرتی رہی ہے لیکن نہ تو تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیا جاسکا اور نہ عسکریت پسندوں کے ساتھ کوئی سنجیدہ مذاکرات کئے گئے جس کا نتیجہ قوم بھگت رہی ہے۔
اگر وزیراعظم عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کا مکمل خاکہ پیش کرتے جس میں حکومت کی طرف سے عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے پہلے اُن کے سامنے تمام حکومتی شرائط بھی شامل ہوتیں تو قدرے بہتر ہوتا اور اگر یہ بات بھی واضح کردیتے کہ اگر عسکریت پسند حکومت کی ان شرائط کے مطابق مذاکرات نہیں کرتے تو اُن کے خلاف اتنے عرصے تک طاقت کا استعمال شروع کر دیا جائے گا۔
ایک طرف تو وزیر اعظم نے انتہائی کمزوری کا اظہار کرتے ہوئے کہا اب ہم مزید لاشیں اُٹھانے کے قابل نہیں ہیں اور دوسری طرف طاقت کا آپشن کھلا رکھنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ایک ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک کا وزیراعظم ملک دشمن قوتوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی بات کرے تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ساتھ ہی انتہائی بے بسی کا اظہار میری سمجھ سے بالا تر ہے، میرے کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کے ہمیں مذاکرات کاراستہ اختیار کئے بغیر طاقت کا استعمال شروع کر دینا چاہئے لیکن جو ریاست کو تسلیم ہی نہیں کرتے اُن کے سامنے گھٹنے ٹیکنا بھی مناسب نہیں۔ میں ذاتی طور پر کسی بھی مسئلے کو طاقت کے ذریعے حل کرنے کا حامی نہیں ہوں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عسکریت پسند عرصے سے حکومت کو مذاکرات کی پیش کشیں کر رہے ہیں۔
Terrorism
حکومت بھی تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے کر عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات اور قیام امن کے لئے پرعزم ہے پھر کیوں سالوں گزر جانے اور لاکھوں جانوں کا ضیاع ہونے کے باوجود آج تک امن قائم نہیں ہوا اور نہ مذاکرات کا عمل شروع ہو سکا؟ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جو ملک میں قیام امن کے پلیٹ فورم پر بھی تمام جماعتیں متفق نہیں ہو رہی؟ کیا سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو ملکی امن سے زیادہ اپنے مفادات کا فکر ہے۔
پچھلی حکومت کی طرح وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے قوم سے خطاب میں ایک مرتبہ پھر عسکریت پسندوں کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر قومی ایجنڈے پر بات کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے ریاست کے خلاف سرگرم عمل قوتوں کو بھی مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں کیونکہ ان کا مقصد ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ کر کے استحکام لانا ہے تاکہ ملک میں معاشی انقلاب برپا کیا جا سکے۔ دہشتگردی کے خاتمہ کے لئے وہ مذاکرات یا ریاستی طاقت کا استعمال ہر دو طرح کے آپشن کھلے رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے اس حوالے سے بڑی دردمندی کے ساتھ کہا کہ ہم ابھی اپنے اندر اتنی طاقت نہیں پاتے کہ مجرموں کا ہاتھ روک سکیں یا انہیں پہچان سکیں۔ وزیراعظم نے غیرجذباتی اور فکر انگیز خطاب میں توانائی کے بحران، معاشی صورتحال، ملک میں پھیلی بدترین دہشتگردی، کرپشن، قومی اداروں کی تباہی، خارجہ پالیسی، ڈرون حملوں، کشمیر، بھارت سے تعلقات، انتظامی مشینری، سیلابی صورتحال، صحت و تعلیم اور روز گار جیسے اہم معاملات پر تحریر شدہ تقریر سے ہٹ کر اپنے دل کی باتیں بھی کیں۔ اگرچہ انہوں نے کوئی باقائدہ روڈمیپ پیش نہیں کیا جس کی عوام اُن سے توقع لگائے بیٹھے تھے۔
انہوں نے ملک کو درپیش مسائل کاذکر بڑی فکر مندی کے ساتھ کیا لیکن مسائل کے حل کے بارے کوئی روڈ میپ پیش کرنے کی بجائے ہر مسئلے کے حل کا دھندلا سا خاکہ پیش کرتے ہوئے اپنا خطاب سمیٹ دیا۔ وزیر اعظم کا خطاب کسی بھی لحاظ سے عوامی امنگوں کا ترجمان نہ تھا کیونکہ عوام اُن کے خطاب سے یہ اُمید لگائے بیٹھے تھے کہ اُن کا وزیراعظم اُن کے دکھوں کا مداوا کرنے آئے گا۔ جیساکہ مہنگائی میں کمی کا اعلان، بے روزگاروں کے لئے مناسب روزگار کا اعلان، صحت و تعلیم میں عام آدمی کے بچوں کیلئے کوئی انتظام اور جانے کیا کیا اُمیدیں لگائے بیٹھے تھے عوام اپنے منتخب وزیراعظم کے خطاب سے۔
M A Tabassum
تحریر : ایم اے تبسم email: matabassum81@gmail.com 0300-4709102