میں نے اپنے پچھلے کالم میں محکمہ ریلوے کی کی تباہی کے حوالے سے لکھنے کا ذکر کیا تھا مگر یہ بھی بتاتا چلوں کہ محکمانہ کرپشن کی اتنی داستانیں ہیں کہ اس پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے کہ ریلوے کا بیڑہ غرق کرنے میں کس کس نے اپنا کتنا کردار ادا کیا مگر اس وقت اپنے پڑھنے والوں کے لیے صرف موٹی موٹی باتیں لکھ رہا ہوں تاکہ آپکو پتہ چل سکے کہ محکمہ ریل کی ترقی کا پہیہ الٹا کیوں گھوم رہا ہے اوردو ماہ سے زائد وقت گذرنے کے باوجود ریلوے وزیر ترقی کی منزل کا راستہ نہ ڈھونڈ سکے اور انکو ابھی تک یہ نہ معلوم ہوسکا کہ ریلوے انجن کی موٹریں کون اتار کر فروخت کر رہا ہے۔
ان انجنوں میں ڈالا جانے والا موبل آئل کہا فروخت ہوتا ہے اور اسکی جگہ تارکول (لک)کے ڈرم کیوں استعمال کیے جارہے ہیں نئے بو گیوں کا سامان اتار کر پرائیویٹ ٹرین کے ڈبوں میں کیوں لگایا جارہا ہے انجن اور جنریٹر میں استعمال ہونے والا ڈیزل کس کے پیٹ میں جا رہا ہے اسکے ساتھ ساتھ وزیر ریلوے کو یہ ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ خیبرمیل، تیزگام، جعفر ایکسپرس، عوام ایکسپرس اور قراقرم ایکسپریس میں عوام کی سہولت کے لیے بنائے گئے۔
ریسٹورنٹس بھی اعلی شخصیات کی جعلی فرضی ناموں سے بنائی کمپنیوں کے نام پرکیوں ٹھیکہ پر دے رکھے ہیں۔ اور تو اور وزیر موصوف کو یہ بھی نہیں معلوم ہوسکا کہلاہور، اوکاڑہ، ساہیوال، ملتان، راولپنڈی، جہلم، گجرات، وزیر آباد، بہاولپور اور دیگر ریلوے اسٹیشنوں اور ٹرینوں میں ناقص اشیاء خوردونوش انتہائی مہنگے داموں کیوں فروخت کی جاتی ہیں اور شکایت کی صورت میں مسافروں کی داد رسی کرنے کی بجائے گراں فروشوں اور جعل سازوں کا ساتھ دیا جاتا ہے ٹرین میں موجود ڈائنگ کار / ریسٹورنٹس میں کھانا۔
160 روپے، ریگولر بوتل 25 روپے فی بوتل، چائے 25 روپے فی کپ، بریانی فی پلیٹ 160 جبکہ بچوں کی اشیاء خوردنی مارکیٹ /رٹیل پرائس سے 50 %اضافی چارج کئے۔ جاتے ہیں اور واضع طور پر کوئی ریٹ لسٹ بھی آویزاں نہیں کی جاتی ٹرینوں کے اوقات کے مطابق آمدورفت کو کنٹرول کرنے کے لئے ریلوے ا نجنوں کی باقاعدہ دیکھ بھال اور مرمت کی بجاے نہ استعمال ہونے والے ریلوے اسٹیشنوں کی مرمت اور تعمیر پر زور دیا جا رہا ہے کیوں کہ اس میں تعمیرات کی غرض سے ٹھیکوں میں کمیشن لیا جاتا ہے۔
Corruption
جس کی واضع مثال یہ ہے کہ پریم نگر ریلوے اسٹیشن پر کسی بھی ٹرین کا سٹاپ نہیں ہے جبکہ اس اسٹیشن کی تعمیر نو کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے اس کے برعکس کوٹ لکھپت بادامی باغ جیسے لاہور کے دروازے کی حیثیت رکھنے والے ریلوے اسٹیشنوں کی حالت انتہائی خستہ ہوچکی ہے۔ جبکہ انتظامیہ اپنے بنگلوں کی آسائش پر کروڑوں روپے کی رقوم خرچ کر رہے ہیں ریلوے افسران محکمہ کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔
کوئی شعبہ ایسا نہیں جو کرپشن سے پاک ہو اور ہمارے وزیر جو انقلابی تبدیلیوں کا نعرہ لیکر ٹرین کے ڈبہ میں سوار ہوئے تھے لگتا ہے کہ انہیں بھی یہ جونکیں چمٹ گئی ہیں تبھی تو انہیں نظر نہیں آرہا کہ محکمہ لوٹنے کے لیے کس طرح ٹرین اور انجنوں کے وہیل بیلنس کرنے کیلئے پلانٹ لگانے کا منصوبہ بنایا گیا اور اس کے لئے لاہور لوکو شیڈ کے قریب ایک عمارت کی تعمیر کے لیے کروڑوں روپے کا ٹھیکہ بھی دیدیا گیا۔ اور پھر ریلوے انجنوں اور ٹرینوں کے وہیل بیلنس کرنے کے لیے لاہور میں لگنے والا پلانٹ کروڑوں روپے خرچ ہونے کے بعد کھٹائی میں پڑ گیا۔
3کروڑ سے زیادہ رقم کی لاگت سے تیار ہونے والی عمارت کا صرف ڈھانچہ ہی بن سکا ٹھیکیداروں نے حصہ بقدر جثہ دیکر مکمل عمارت کی رقم وصول کر لی وہیل بیلنسگ کے لئے بیرون ملک سے منگوایا گیا پلانٹ زنگ کی لپیٹ میں آگیا اور ریلوے کو اب تک اسی پلانٹ کی مد میں کروڑوں روپے کا نقصان ہوا اب ایک بار پھر پیٹ پوجا کرنے کے لیے پلانٹ کی تنصیب کے لئے نئے سرے سے ٹینڈر دینا پڑیں گے جس پر ایک بار پھر تنصیب اور اس کی الیکٹریکل انسٹالیشن پر الگ سے اخراجات ہونگے۔
محکمہ ریلوے میں کرپشن کی داستانیں اب اتنی عام ہوچکی ہیں کہ اس محکمہ کی کرپشن اب کرپشن محسوس ہی نہیں ہوتی اور جو بھی اس محکمہ میں آتا ہے وہ اسی کے رنگ میں رگ جاتا ہے خواہ شیخ رشید ہوں غلام احمد بلور ہوں یا ہمارے لاہوری بھائی خواجہ سعد رفیق ہوں انکے تو ویسے بھی انعام بہت نکلتے ہیں انہیں کسی سے کیا لینا دینا بس مہینہ میں ایک آدھ پریس کانفرنس کرلی کبھی اسٹیشن پر تو کبھی ہیڈ کوارٹر پرباقی محکمہ جانے اور اسکے افسران۔