پانچ سال بعد سابق صدر پرویز مشرف پر بے نظیر قتل کیس میں فرد جرم عائد کرتے ہوئے انہیں قاتل مجرم قرار دیا گیاہے، اس سے قبل سابق صدر کو پاکستان کے قومی انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا تھا، یہ خدشہ تھا کے وہ الیکشن میں کامیاب ہونگے اس لئے انہیں آج غریب عوام جنہیں میں نے ہمیشہ دو پائے کیڑے مکوڑے لکھا، کہ میرا تعلق بھی اسی گروہ سے ہے ظلم اور ظلم خدا کا جمہوری ادوار میں لاہور میں آٹا ٤٠ روپئے کلو، دور دراز مقامات میں ٥٠ روپئے کلو ہوگا ،٦ افراد کے غریب کنبے پر کیا گزرتی ہے بجلی قیمت میں مسلسل اضافہ اِس اضافہ پر ہی بس نہیں اس کے ساتھ ہی بل میں حکومتی جگا ٹیکسوں میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے خیر یہ الگ مضمون ہے کہ کس طرح عوام کی کھال کھینچی جا رہی۔
اور ڈالر پاکستانی کرنسی کو پیروں تلے روند رہا ہے پاکستانی کرنسی دنیا کی واحد کرنسی جس کے بنیادے سکے بے وقت ہو کر مارکیٹ سے غائب ہو گئے اور روپیہ کا سکہ بھی بے وقعت ہے مشرف د ور میں ڈالر ٦٨ روپئے سے اگے نہیں بڑھ سکا، معیشت میں ترقی، بعض قوتوں کویہی منظور نہ تھی یہ ڈالر اور آٹا تو خواہ مخواہ بیچ میں آگئے بات مشرف کو مجرم قرار دینے کی ہے تاریخ کے بد ترین ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے بھی پی پی پی خصوصاً زیڈ اے بھٹو کو الیکشن سے ہمیشہ کے لئے باہر کر دیا ،مگر آج جمہوریت کے دعوے داروں اور رکھوالوں نے مشرف کو اوٹ کرنے کے اقدامات کئے ہیں کیوںکہ وہ آج بھی عوام میں مقبول ہیں۔
٨ جنوری ٢٠٠٨ میں اپنے مضمون میں بے نظیر بھٹو قتل پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا سیاست دانوں کے بیانات اصل رُخ کی بجائے مشرف مخالفت تک کے اِس قتل کا زمہ دار پرویز مشرف ہے، اس اہم قتل سے متعلق بے شمار سوالات گردش میں ہیں صدر مشرف اس قتل کا زمہ دار کیوں جبکہ بے نظیر بھٹو اس کی اتحادی اور ڈھال تھی پھر یہ سوال بھی کہ بی بی جیسی بین الاقوامی سیاسی شخصیت جو دو مرتبہ ملک کی وزیر آعظم اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر آعظم کا اعزاز بھی رکھتی انتہائی عجلت میں سپرد خاک کر دیا گیا قتل سے متعلق متضاد بیانات، اگر تو پوسٹ مارٹم کیا جاتا تو جو انتہائی ضروری تھا۔
Benazir
تو پہلی اطلاع یہ کہ تین گولیا لگیں، دوسری خبر سن روف کا لیورسر پر لگنے سے گہرا زخم آیا جو موت کا سبب بنا اِن متضاد اطلاعات نے نا صر ف سوالات کو جنم دیا بلکہ اس قتل کو گہری سازش کا نتیجہ قرا دیا یہ بھی کہا جاتا تھا کہ بینظیر کو قریب سے نشانہ بنایا کیا اس کے چاروں طرف پھیلے لوگ اندھے ہو گئے تھے یہ قتل امریکی صدر جان ایف کینیڈی (1967،)کے قتل سے مماثلت رکھتا ہے اُسے کار میں بیٹھنے کے بعد دور سے نشانہ بنایا گیا بے نظیر بھٹو کو بھی کسی عمارت سے تربیت یافتہ مشاق نشانہ باز نے سر کا نشانہ بنایا کہ یہی حصہ غیر محفوظ تھا گزشتہ اکتوبر میں جب ملالہ یوسف زئی کو قریب سے محض تین چار فٹ کے فاصلہ سے نشانہ بنایا اور اُسے بھی سر میں گولی لگی۔
تو قریب ہی تیار آرمی ہیلی کاپٹر کے ذریعہ سی ایم ایچ پشاور لے جایا گیا اور وہ ٍمگر بینظیر کو اور اب پانچ برس بعد یہ دیکھنا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کو اسے قتل کرنے میں کون ایسے ذاتی مفاد کا حصول تھا کہ جو قتل کئے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا تھا حالانکہ بینظیر بھٹو کے ساتھ ہی تمام تر سودے بازی ہوئی، اگر بینظیر سے کوئی مخاصمت تھی تو اُس کے ساتھ سودے بازی کا کیا جواز تھا اور جن کے خلاف عدالتوں میں کرپشن کے الزامات تھے انہیں پاکدامنی کا پروانہ جاری کیا گیا آصف علی زرداری اور خود بنینظیر بھٹو بھی ان لوگوں میں شامل تھی، خود کش اور بم دھماکوں سے آج تک ٥٠ہزار کے قریب لوگ مارے جا چکے ہیں۔
ان کا الزام تو صدر یا وزیر آّعظم پر نہیں، بینظیر بھٹو کے ساتھ ہی دھماکے اور لوگ بھی مارے گئے اُن کا الزام کس پر کیا وہ پاکستانی یا انسان نہیں تھے، بینظیر کے قتل کا الزام مشرف پر کیوں دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے کہ پرویز مشرف کمانڈو لباس میں بہت بڑا دہشگرد ١٨ ،اگست کو ٨ صفحات پر مشتمل فرد جرم پڑھ کر سنائی گئی ”بینظیر بھٹو کے قتل کی سازش، دہشت گردی کا جرم، دہشت گردوں کو بے نظیر تک رسائی فراہم کرنا، بے نظیر کی سیکیورٹی توڑنا، وقوعہ کے فوری بعد کرائم سین کو دھو دینا، دھماکہ خیز موادکا استعمال اور مجرمان کی اعانت کرنا جیسے الزامات شامل ہیں، مقدمہ کی کاروائی ،میں پرویز مشرف کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کیونکہ یہ مقدمہ دہشت گردی کی دفعات کے تحت خصوصی عدالت میں۔
United Nations
پہلی اہم بات کہ ساڑھے پانچ برس تک مجرم تو ابھی تک منظر پر نہیں آئے کہ اصل قاتل کون البتہ جرم میں مدد کرنے والا پرویز مشرف (سابق صدر کہنا بھی مناصب نہیں سامنے آیا ہے، دوسری اہم بات، ابھی پردئہ راز میں ہے کہ مجرم پرویز مشرف نے اعانت جرم میں شامل ہو کر کیا مفاد حاصل کئے جو چییف ماشل لاء اید منسٹریٹر ہوتے ہوئے جب ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے حاصل نہ کر سکا، اب فرد جرم عائد ہوتے ہی ایک بار پھی مغربی میڈا میں باز گشت سُنی گئی، بینظیر بھٹو قتل کیس کی اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ نے اپنے ایک مضمون میں انکشاف کیا ہے کہ سرکاری کہانی کہ مطابق بینظیر بھٹو کو طالبان نے قتل کیا۔
بینظیر کی ذاتی سیکیورٹی بھی ناکام رہی، یہ قتل ایک نہیں بلکہ کئی افراد کے اشتراک سے کیا گیا، القائدہ کے حکم سے طالبان نے اتظامیہ کی مدد سے قتل کیا، ھیرا لڈو مونز کا یہ مضمون فارن افیئر میگزین میں شائع ہوأ، مزید لکھا کہ بینظیر قتل کا معمع کبھی حل نہیں ہو گا (صرف یہی ایک سچ باقی جھوٹ)کہ پولیس نے قتل کے حقائق پر پردہ ڈالا ہے ،لکھتے ہیں بے نظیر نے ای میلز کے زریعہ پہلے ہی پرویز مشرف کیطرف سے لا حق خطرات سے اگاہ کر دیا تھا،(یہی بات عقل و فہم سے ماورا ہے)، معاہدے کے باوجود بینظیر بھٹو نے حکومت پر سخت تنقید شروع کی اور الیکشن میں قبل از وقت دھاندلی کے الزامات بھی لگائے۔
مشرف اور خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے مناسب سیکیورٹی بھی فراہم نہیں کی، آئی ایس آئی کے کردار کو بھی مشکوک قرار دیا اور لکھا کہ کیس میں خُفیہ اہلکاروں کے ملوث ہونے کے شبہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ”! اس طویل مضمون میں اور بہت کچھ لکھا ہے، مگرکسی سازش کی سچائی نظر نہیں آتی، بے بینظیر بھٹو کے قتل کا منصوبہ پہلے سے تیار تھا مگر جب وہ کا ر میں بیٹھ گئی تو قتل کرنے کا وہ منصوبہ از خود فیل ہو گیا۔
اب اگلی کہانی کہ کس نے اُسے سر باہر نکالنے کے لئے کہا کیوں سن روف سے سر بار نکالا وہ کون لوگ ہیں جن کو قتل سے مفادات حاصل ہوئے، یہ کہنا بجا کہ بینظیر قتل کا معمع کبھی حل نہیں ہوگا جیسے قائد ملت کے قتل کا آج تک پتہ نہیں چلا، اِس کیس میں مشرف کو ملوث کرنے کا مقصد یہی ہے کہ کچھ لوگوں کی ذاتی انااور کہانی کا رخ موڑنا، کیسا بودا الزام کے مجرموں کی اعانت جن مجرموں کا آج تک کوئی سراغ نہیں مل پھر وقوعہ کے بعد کرائم سین کو دھو دینا، حادثہ تو گاڑی کے اندر ہوأ، جگہ دھو دینے سے کیا تعلق پاکستانی پولیس کے پاس رعمیسیس کی ممی لائی جائے تو بھی سچ اگل دیگی۔