کراچی (جیوڈیسک) بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے ،سندھ میں سیکڑوں غیرقانونی تقرریاں کی گئیں، آسامیاں اکتوبر 2012 میں مشتہر ہوئیں اور بھرتیاں 3 ماہ پہلے جولائی میں ہی کرلی گئیں، کہیں ایک شخص کو دو، دو نوکریاں دی گئیں تو کئی فرضی نوکریوں کی تنخواہیں افسران وصول کررہے ہیں۔ ذرائع کی حاصل کردہ دستاویزات کے مطابق اپریل 2011 میں نیشنل بینک کے گریڈ 17 کے ایک ملازم کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں گریڈ19 کی پوسٹ پر ڈائریکٹر سندھ تعینات کیا گیا، قواعد کے مطابق اس پوسٹ کے لیے 20 سال کا تجربہ اور ماسٹر ڈگری درکار ہوتی ہے۔
جب کہ سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر مٹھیالو مختار سیال کے مطابق پرویز اقبال نیشنل بینک میں ہاکی کے کھلاڑی تھے اور گریجوایٹ ہیں جو ماہانہ 2 لاکھ 48 ہزار روپے تنخواہ لے رہے ہیں۔ دستاویزات کے مطابق بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت سندھ میں غیر قانونی تقرریاں بھی کی گئیں جن کی آسامیاں اکتوبر 2012 میں مشتہر ہوئیں اور تقرریاں 3 ماہ پہلے جولائی میں ہو چکی تھیں۔ ڈائریکٹر سندھ نے اپنے دو بھائیوں کو بھی سپر وائزرز کے عہدے پر تعینات کیا۔
دستاویزات کے مطابق 6 آسامیاں ایسی تھیں جن پر 12 افراد بھرتی کیے گئے تو دوسری طرف 12 افراد کو دو، دو نوکریاں بھی دی گئیں۔ دستاویزات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ فرضی افراد کو نوکریاں دے کر تنخواہیں افسران اپنی جیبوں میں ڈال رہے ہیں۔ سندھ کی 120 تحصیلوں میں بے نظیر ڈیبیٹ کارڈ سنٹرز کے لیے 4 کروڑ 57 لاکھ روپے جاری ہوئے لیکن یہ رقم ان سنٹرز کو ادا کرنے کی بجائے افسران مبینہ طور پر غبن کر گئے۔ دستاویزات کے مطابق گھوٹکی، مٹالی، پنو عاقل، بدین اور سکھر میں کروڑوں روپے کی امداد مبینہ طور پر بااثر افراد کو دی گئی۔