کالم نگاری نہ ادب و شاعری ہے، نہ تقریر و خطابت کا نام ہے اور نہ سیاست کا، بلکہ یہ حکایت و داستاں سرائی ہے، گربیک وقت یہ صحافت و ادب بھی ہے اور شاعری بھی، کالم نگاری داستاں گوئی بھی ہے یہاں تک کہ وہ تقریر و خطابت کی شعلہ سامانی کو اپنے دامنِ وسیع میں سمیٹے ہوئے ہے، کالم نگار کا قلم بھی شعلے برساتا ہے اور کبھی شبنم تو کبھی معاشرے کے ناسور پر نشتر لگاتا ہے اور کبھی دلوں پر مرہم بھی رکھتا ہے۔ کالم نگار معاشرے میں وجود پذیر ہونے والے نظریات و تحریکات کا بالا ستیعاب مشاہدہ کراتا ہے، کالم نگار اگر ظالم و مظلوم، حاکم و محکوم کے لئے تازیانہ ہے تو وہیں معاشرے کے مجبور وبے کس کے لئے شمع فروزاں بھی ہے۔ کالم نگاری صحافت کے دائرہ میں بھی آتی ہے مگر تاحال سوائے چند ایک کہ کسی کو اس فن سے مالی اعانت نہیں ملی جو کہ ان کالم نگاروں کے ساتھ سراسر زیادتی کے مترادف ہے۔
کالم نگاری کا دائرۂ کار اور دائرۂ عمل اس قدر پھیل اہوا ہے کہ اس کی سماجی وسیاسی، تہذیبی و تمدنی اور اخلاقی اور ہمہ گیر وسعت اور معنویت سے کون انکارکر سکتا ہے، اس کا اعتراف کرتے ہوئے اکبر الہٰ آبادی یوں گویا ہوئے ہیں: کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو اسی طرح یہ بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ کالم نگاری نے اپنی کوکھ سے ایسے انقلابات کو جنم دیا ہے جس کو تاریخ نے اپنے آغوش میں محفوظ کر لیا ہے جس کی ایک جھلک پاکستان میں آزادی کا وہ طوفانِ بلا خیز ہے جس نے سامراجی حکومت کو متزلزل کرکے رکھ دیا تھا۔ اور جنگِ آزادی میں صحافت سمیت کالم نگاری نے جو مزاحمتی کردار ادا کیا اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ کیونکہ کالم نگاری اور صحات نے آزادی کی چنگاری کو شعلہ بنا دیا تھا جس کی وجہ سے پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف نفرت کا آتش فشاں پھوٹ پڑا تھا اور صحافت نے پھر اس گلشن کی اس طرح آبیاری کی جس سے ہمارا یہ وطن پھر چمن زار ہو گیا۔
Allama Mohammad Iqbal
آج مغربی اُفکار اور نظریات و مادیت میں ڈوبے اس قحط الرجال میں کالم نگاری کی ذمہ داری دو چند ہو گئی ہے کیونکہ کالم نگار کی اہمیت و افادیت اور افکار و نظریات اہداف کی ترسیل و تبلیغ کی آج بھی اشد ضرورت ہے،آج مادی رجحانات نے صحافت کو اپنا وسیلہ بنا لیا ہے اور ہوس پرستی اور انسانیت سوزی کو فروغ دیا جا رہا ہے اور بین الاقوامی سطح پر اپنے سامراجی مقاصد کی تکمیل اور دوسری قوموں کو ذہنی غلامی میں ڈال کر ان کا استحصال ہو رہا ہے، پھر بھی اگر کوئی کالم نگار مغربی افکار و نظریات کو اجاگر کرتا ہے تو اس پر لعن طعن کیا جاتا ہے، یعنی کہ اگر کوئی اسلامی اقدار، انسانی غیرت و حمیت اور دینی و اخلاقی ذمہ داری کے ساتھ مسائل کو اُجاگر کرتا ہے تو اس کے خلاف پروپیگنڈے اور کذب و افتراء کا طوفانِ بلا خیز کھڑا کر دیا جاتا ہے۔
لہٰذا آج انصاف پسند، صداقت شعار اور انسانیت دوست حضرات پر یہ ذمہ داری آن پڑی ہے کہ کالم نگاری کے اس طاقتور وسیلہ کو بروئے کار لاتے ہوئے عالمِ انسانیت کو مکر و فریب، الحاد و دہریت اور انسان دشمنی، اخلاقی انار کی اور مادی خود غرضی کے جنجال سے نکال کر امن عالم، انسانیت دوستی، عدل و انصاف، پاکیزہ نظریات و خیالات اور صلاح عقائد و اُفکار کی شمعیں فروزاں کی جائیں اور یہ کام اسی وقت ممکن ہے جب کہ کالم نگاری اسلام کے ضابطۂ اخلاق سے واقف اور کالم نگاری کے مقصد سے روشناس ہو، کیونکہ مقصد کے تعین کے بعد کردار کا تعین ممکن ہوتا ہے اور اس اصول وآگہی کے بعد اس کا قلم عربی کے اس مقولہ کے مصداق ہو جاتا ہے (القلم القطع من السیف) اور پھر یہ اپنے قلم کی جولانی سے معاشرہ و انسان کو گہوارۂ امن و محبت اور گلِ گلزار بھی بنا سکتا ہے، چنانچہ مفکرِ اسلام حضرت علامہ محمد اقبال نے صحافیوں کے ایک سرکردہ جلسے کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا” ہزاروں جانیں آپ کی ایک جنبشِ قلم کے نیچے ہیں۔
آپ کی ذراسی بے احتیاطی ملک و معاشرہ کو کہیں سے کہیں پہنچا سکتی ہے” لہٰذا کالم نگاری عہدِ حاضر کا ایک بہت مؤثر و طاقتور ذریعۂ ترسیل و ابلاغ ہے جس کا آج مغربی قومیں پوری طرح استعمال کر رہی ہیں۔ کالم نگار وں کے کالم اخباروں کی خوبصورتی ہے، انہوں نے کالم نگاری کے میدان میں بے شمار خدمات انجام دی ہیں تو بھلا آج ان کالم نگاروں سے صحافت کیوں خالی رہ جاتا، لہٰذا کالم نگار احباب نے دوسرے علوم کے ساتھ ساتھ کالم نگاری کی آبیاری اس طورپر کی کہ خونِ جگر کو صرف کرنے میں کوئی بخل نہیں کیابلکہ فیاضی اور فراخ دلی کا ایسا ثبوت دیاہے کہ اہلِ علم، صاحبِ قلم و قرطاس اس کے اعتراف سے کبھی پہلوتہی نہیں کر سکتے، چاہے وہ کسی بھی اخبار میں اپنی کالم نگاری کے جوہر دکھا رہے ہوں۔
Quran Kareem
شہنشاہیت ہر دور میں مسلّم رہی ہے اور لوح وقلم کا تذکرہ ہمیں یقین دلا رہا ہے کہ قلم، علم وآگہی کا وسیلہ ہے۔ اس کی شہادت خود قرآنِ کریم نے دی ہے۔”والقلم وما یسطرون” جس سے اس کی عظمت میں دو چند اضافہ ہو گیا ہے۔ قلم کی اہمیت ہر زمانے میں سکۂ رائج الوقت کی سی رہی ہے۔ یہ قلم جب قرطاس ابیض پر خونِ جگر سے موتی پِروتا ہوا نظر آتا ہے تو اس کی شان اور نکھر جاتی ہے، کبھی یہ حریفوں کے سر پر برق بن کر آن واحد میں ان کا تصفیہ کرتا نظر آتا ہے، جس سے دشمن کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں، تو کبھی آندھیوں اور زلزلوں کی شکل میں قصرِ سلطانی کو مسمار کرتا دکھائی پڑتا ہے، یہی تو قلم ہے جو اپنے دوستوں، خیرخواہوں کی پشت پناہی اور مددو نصرت پر آتا ہے تو دشمن کے لئے نیزہ و خنجر بن جاتا ہے۔ اور کبھی تفکر و تدبر کے بنددریچوں کو واکرتا ہے اور ذہن و دماغ کی سلوٹوں سے ایک ایک واقعہ کھینچ کر لاتا ہے، اور حسین و دلکش تاریخ کا گلدستہ پیش کرتا ہے۔
یہی قلم جب کالم نگاروں کے ہاتھوں کی زینت بنتا ہے تو تصورات و خیالات، حقیقت پسندی، مسائل کے حل کی وادیوں سے خوش رنگ و خوشنما گل چُن کران سے مضمون اورکالم کی مالابناتاہے جس سے مردہ دلوں میں تازگی و فرحت کا احساس جاگ اٹھتا ہے اور کبھی عشق کے دامن میں شیریں و فرہاد کے زخمی تاروں کو چھیڑتا ہے۔ الغرض اس قلم اور کالم نگار کی داستان بہت طویل ہے، تاریخ کے کھنڈرات میں اس کے ایسے نشانات درج اور ایسے نقوش ثبت ملیں گے جن کو دیکھ کر عقل کو پسینہ آ جائے گا، دماغ محو حیرت نظر آئے گا اور دل کی دھڑکنیں کپکپانے لگیں گی۔ قلم دریچے وا کرتا ہے نئی دنیائوں کی، قلم توانائی بخشتا ہے، نئے قدموں کو رواں دواں کرتا ہے، اور لاشعور کی گرہیں کھولتا ہے، وہ روحانیت کی سچائی اور انسانیت کے باطنی چشموں کو بروئے کار لاتا ہے، آج ہر قلم کار کو اپنے اس اہم فریضہ سے عہدہ برآں ہونا چاہیئے۔
حکومتِ پاکستان کو چاہیئے کہ کالم نگاروں کے حقوق کے تحفظ کرنے کا اعلان کریں، کیونکہ صحافت سے جڑی کالم نگاری بھی اہم ہوتی ہے کیونکہ صحافت اور کالم نگاری کا ساتھ ہمیشہ چولی اور دامن کا رہا ہے اور کالم نگار بھی تو اسی ملک کا پھول ہے اس لئے ان کے حقوق کے ساتھ ساتھ انہیں مالی فوائد سے بھی نوازا جانا چاہیئے کیونکہ آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں کالم نگاروں کی سرپرستی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لئے مختلف النوع مالی فوائد کا اعلان بھی کیا جانا چاہیئے جیسا کہ معزز صحافی برادری کے لئے ہمیشہ کیا جاتا رہا ہے تاکہ یہ حضرات اور بھی دل جمعی کے ساتھ اپنے کارہائے نمایاں انجام دے سکیں۔