ہمارا وطن عزیز اس وقت بد ترین دور سے گزر رہا ہے ہر طرف تباہی ہی تباہی ہے۔ پورے پاکستان میں امن اور سکون کی زندگی ایک سپنا ہو تی جا رہی ہے۔ بڑے بڑے شہروں میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اور اغواء برائے تاوان جیسی وارداتوں نے عوام کوبے چین کیا ہوا ہے جس کی تباہی سے ہزاروں سے خاندان متاثر ہو چکے ہیں وہیں چھوٹے شہروں میں چوری ڈکیتی، راہ زنی جیسی بڑھتی ہو ئی وارداتوں نے عوام کی نیندیں غائب کی ہیں جبکہ اب ہمارے دیہات ہیں جہاں دوسرے مسائل تو ایک طرف لیکن ہر سال سیلاب آ کر کروڑوں لوگوں کو متاثر کرتا جس سے لاکھوں گھر والے بے گھر اور دینے والے ہاتھ لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
سیلاب کی تباہی سے نہ صرف سیکڑوں انسانی جانوں کا ضیاع ہو تا بلکہ لاکھوں کی تعداد میں مال مویشی بھی تباہی کی نظر ہو جاتے ہیں یہ ہی نہیں بلکہ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی سرسبز فصلیں بھی اس تباہی کا لقمہ بن جاتی ہیں ۔جس سے عام عوام کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معشیت کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے سیلاب مسلسل آرہیں ہیں جو ایک معمول ہی بنتے جا رہے ہیں۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی پاکستان سیلاب آیا ہوا ہے جس سے کروڑوں لو گ متا ثر ہو ئے ہیںجس سے بڑے پیمانے پر تباہی پاکستان کا مقدر بن چکی ہے۔ سیلاب سے متا ثرین پر پل پل کیا گزر رہی ہے یہ اُن کو ہی معلوم ہے جو اس بربادی کی داستان کا حصہ بن چکے ہیں مگر اسلام آباد ، لاہور اور کراچی میں بڑے بڑے محلات میں بیٹھے جابروں کو کیا علم کہ بربادی اور تباہی کا عالم کیا ہو تا ہے۔ کس طرح اپنے پیاروں کو بے رحم پانی کے نظر ہو تے دیکھا جاتا ہے، کیسے عزتیں کھلے آسمان تلے سڑکوں اورچو راہوں میں محفوظ رکھی جا سکیں گئیں۔
Liaquat Ali Khan
جس پر بیت رہی ہو اُس کو ہی معلوم ہو تا ہے کہ کیا بے چینی کیا پریشانیاں ہے۔ خاکی وردی اور بڑے بڑے بوٹ پہن کر ڈرامائی ریکاڈنگ اور فوٹوں شوٹ ضرور کروا ئی جاسکتی ہے مگر کسی کی پریشانی کا عالم دل کا حال معلوم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہمارے حکمرانوں، سیاسی لیڈروں کو تباہی اور بربادی میں گہرے افراد کی بے بسی اور لاچاری نظرآتی اور اُن کا درد محسوس ہو تا تو آج یہ رحمت کا پانی ہمارے لیے زحمت نہ بنتا۔ یہ تباہی، بربادی پاکستان کی خوشحالی میںتبدیل کی جا سکتی تھی اگر پاکستان کو لیاقت علی خان کے بعد کوئی ایماندار قیادت نصیب ہو تی تو لیکن بد قسمتی جو بھی اقتدار کی کرسی پر آیا اُس نے اپنا اور اپنی ٹیم کا ہی سوچا مگر ملک اور اس کی عوام کا نہیں خیال کیا۔اس لیے رحمت کا پانی ہر سال باعث زحمت بن جاتا ہے۔ اگر اقتدار سنبھالنے والوں کو پاکستان اور اس کی عوام کا خیال ہو تا تو آج یہ صورت حال نہ ہوتی۔
مگرملک عوام دوست حکومتیں ایسی ہو تی ہیںکہ پیرس میں 1910 میں ایک خوفناک سیلاب آیا تھا جو فرانس کی تاریخ کا بد ترین سیلاب ثابت ہوا۔ یہ سیلاب بھی پاکستان میں آنے والے سیلابوں کی قسم میں سے تھا۔ جنوری کے آغاز میں فرانس میں بارشوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجہ میں دریا ئے سین جوش میں آگیا اور بے قابو ہو گیا۔ دریائے سین کی جوشیلی لہریں پیرس میں داخل ہو گئیں جس سے پیرس تباہی کی نظر ہو گیا۔ 1200 کلومیٹر کا رقبہ بالکل تباہ ہو گیا جس میں 25 ہزار سے زائد عمارتیں تباہ ہوئیں، سیکڑوں جانیں ضائع ہوئیں اور فرانس کو اس سیلاب سے 1.5 بلین ڈالر کا نقصان ہوا تھا لیکن خوش قسمتی فرانس کی کہ حکومتوں نے یہ فرانس کی تاریخ کا آخری تباہ کن سیلاب ثابت کر دیا۔ فرانس میں 1910 کے بعد اب تک 23 کے قریب سیلاب آئے جو دریاوں میں بل کھا کھا کر ہی دم توڑ گئے مگر کیسے…؟جی ایسے کی دریائے سین جو ڈیڑھ سو یا دوسو کلومیٹر لمبا تھا۔
حکومت نے اُس کو مزید پھیلا دیا اور اس دریا کی لمبائی ہزاروں کلومیٹر کر دی چنانچہ اب فرانس میں سیلاب آئے تو وہ کناروں سے باہر بھی نہیں نکل پاتا کیونکہ سیلاب کی بھاگتی ہوئی جوشیلی لہریں چند سو کلومیٹر بعد دم توڑ جاتی ہیں اور رحمت کا پانی رحمت ہی رہتا ہے زحمت نہیں بنتا اور کوئی جانی مالی نقصان فرانس کو نہیں ہوتا۔ لیکن ہمارے پاکستان میں اقتدار بھوکے لیڈر وں نے کبھی پاکستان کے مستقبل کے بارے میں سوچا کہ آخرکب تک یہ سیلاب کا بے رحم پانی ماوئں کے لال موت کی نیند سلائے گا کب تک مائیں، بہنیں، بیٹیاں سڑک پر سوئیں گی، کب تک لہلہاتی فصلیں اجڑیں گیں، کب تک لوگ ہاتھ پھلائیں گے اور کب تک حکومت بھی عالمی اداروں سے مدد کے نام پر بھیک مانگتی رہے گی۔ آخر کب تک یہ سیلابی پانی ہرسال اس ہی طرح بربادی کا سبب بنتا رہے گا اس کو کسی بھی طریقے سے کنٹرول کرنا چاہیے۔ اس رحمت کے پانی کو باعث رحمت ہی بنایا جائے اور اس مسئلہ کا مکمل حل دریافت کیا جائے نہ کہ ہماری حکومتیں ہاتھ پر ہاتھ دہرے بیٹھی رہیں۔